دوسری دفعہ

دوسری دفعہ
تحریر محمد اظہر حفیظ
پہلی دفعہ مارچ 2012 میں ھم دو دوست عثمان عادل بٹ اور محمد اظہر حفیظ روھی ٹی وی کی ایک فوٹوگرافی کی اسائنمنٹ پر نکلے جگہ جگہ رکاوٹیں تھیں، صبح آٹھ بجے گھر سے نکلا بٹ صاحب کو نیشنل پولیس فاونڈیشن سے ساتھ لینا تھا گاڑی کے بریک شو نئے ڈلوائے تھے پہیوں میں آگ نکل رھی تھی راولپنڈی سے خرادئے سے ڈرم پر ٹول لگوایا اور گیارہ بج گئے بٹ صاحب کو ساتھ لیا اور ھم نے کھاریاں کینٹ کچھ سامان چھوڑنا تھا وھاں سے نکلے تو گوجرانوالہ روڈ بلاک تھی لوڈشیڈنگ کے خلاف مزدور احتجاج کر رھے تھے، رات کے آٹھ بجے تک وھاں وقت ضائع کیا اور جب لاھور پہنچے تو روھی لاھور کے سب اینکرز ھمارا انتظار کر رھے تھے، انکا فوٹوشوٹ کیا کھانا کھایا اور رات کے ڈیڑھ بجے ھم دوبارہ بہاولپور کیلئے روانہ ھوئے رات کے سوا دو بجے کے قریب ھم میوزک سنتے جارھے تھے جگہ جگہ پولیس کی گاڑیاں پھرتی نظر آرھی تھیں ھم میاں شہباز شریف صاحب کے انتظامی امور کو سراہ ھی رھے تھے اورگاڑی ایک سو بیس کی سپیڈ پر تھی سڑک بہت اچھی تھی دو رویہ تھی کہ مجھے اچانک ایسے لگا کہ سڑک کے درمیان میں دور کوئی ھلکے نیلے رنگ کے کپڑوں میں کھڑا ھے اور اس کا منہ بھی ڈھکا ھوا ھے، ایک آدمی تھا میں نے اپنی پسٹل پاوں سے اٹھائی لوڈ کرنے لگا ھی تھا کہ عثمان بول پڑا آقا کیا بات ھے، یار گیم آن ھوگئی ھے، تم نیچے ھو جاو میں فائر کرتا ھوں ساتھ ھی سامنے والے ڈاکو صاحب نے ھماری گاڑی کے ٹائروں کا نشانہ لیکر فائرنگ شروع کردی، میں نے سپیڈ کم نہیں کی لیکن حساب لگا رھا تھا کیا کیا جائے کہ کافی سارے اور گن بردار بھی سڑک پر آگئے ساتھ ھی اس نے نشانہ ڈرائیور کا لیا اور میں نے پہلا کلمہ پڑھا وینڈ سکرین سے گولی ٹکرائی اور سائیڈ پر نکل گئی، میں نے گاڑی لہرانا شروع کردی جیسے مجھے گولی لگ گئی ھو، وہ دوڑ کر سائیڈ پر ھوئے اور ھم نکل گئے، مجھے آج بھی ایسے ھی نظر آتا ھے جیسے بڑے پردے پر فلم چل رھی ھو، بھائی پھیرو کا علاقہ تھا پتوکی سے کچھ پہلے ھم نے ایک پیٹرول پمپ پر رک کر گاڑی چیک کی سب ٹھیک تھا بس ونڈسکرین ٹوٹی تھی ھیڈ لائٹ ٹوٹی تھی اور بمپر ٹوٹا تھا گولیاں صرف پانچ گاڑی کو لگیں تھی، شکر الحمدللہ پڑھا اور پھر سفر پر روانہ ھوگئے اب ایک گاڑی پیچھا کرنے لگ گئی ھم پتوکی کی طرف مڑ گئے اللہ نے پھر بچا لیا، کل 12 اپریل2021 آنٹی نسرین اشرف صاحبہ کا عصر کے بعد جنازہ تھا اور انکل آئی اے رحمن صاحب کا عشاء کے بعد جنازہ تھا، میں تو چار بجے لاھور پہنچ گیا پر بعد میں آنے والے اسلام آباد، ملتان حتی کہ لاھور والے بھی جنازے پر نہ پہنچ سکے، ھمیں کچھ نہیں پتہ تھا کہ سب کیا ھورھا ھے، ڈاکٹر فوزیہ سعید صاحبہ کی کال آئی ھم فیض پور انٹرچینج پر پھنس گئے ھیں اور کئی گھنٹے کے انتظار کے بعد وہ وھیں نزدیکی کسی دوست کی طرف رک گئیں، سجاد اکرم بھائی بھی کوئی چار گھنٹے سے موٹروے پر کھڑے تھے فیصل جمال صاحب فیصل آباد جانے کیلئے اپنی بیمار ماں کے ساتھ پھنسے ھوئے تھے، وہ اپنے ماموں کے جنازہ سے واپس جارھے تھے، بقول انکے کہ پہلی دفعہ ننکانہ صاحب اور پتہ نہیں کون کونسے علاقے دیکھے، میرے ذھن میں تھا کہ ان حالات میں جنازہ پڑھ کر واپس چلے جانا چاھیئے لیکن کوئی بھی سڑک صبح تک نہیں کھلی تھی سب بند تھا پورا پاکستان بند تھا، اب اطلاع مل چکی تھی کہ تحریک لبیک کے دوست صاحبان یہ سب اپنے لیڈر کے حراست میں لئے جانے پر کر رھے ھیں یاسر بھائی موٹروے پولیس میں ھوتے ھیں ان سے رات سے ھی رابطے میں تھا، صبح انکی کال آئی بھائی موٹروے سے آجائیں جی ٹی روڈ پر ابھی بھی مسائل ھیں ، میں امین اقبال بھائی کی طرف ٹھہرا ھواتھا انہوں نے راستہ گائیڈ کیا اور میں نہر پر سے ھوتا ھوا ٹھوکر نیاز بیگ سے موٹروے پر آگیا، ٹول پلازہ کراس کیا تقریبا ایک بجنے والا تھا مجھے سمجھ نہیں آرھی تھی کہ آج کیا فلم چلے گی میں دائیں بائیں بھی دیکھ رھا تھا اور سامنے بھی کہ کب لوگ آکر سڑک بلاک کردیں ساتھ سپیڈ بھی 120 تھی کہ نزدیکی آبادی والے علاقوں سے گزر جاوں ، ابھی تھوڑا فاصلہ ھی طے کیا تھا جہاں پر رن وے کی جگہ چھوڑی ھوئی ھے اور لال رنگ کی پلاسٹک کی رکاوٹیں رکھی ھوئی ھیں، وھاں پر تھا کہ مجھے سامنے سے آسمان کی طرف سے دو تیز روشنیاں آتی نظر آرھی تھی اور وہ بہت سپیڈ سے نیچے کی طرف آرھی تھیں لیکن وہ ساتھ والی سڑک جس کی ٹریفک لاھور جارھی تھی اس طرف تھیں میں سمجھ گیا شاید جہاز اتارنے لگے ھیں اور دوسری طرف پر ٹریفک رواں دواں دیکھ کر مجھے سچویشن سمجھ نہیں آرھی تھی ساتھ کیا دیکھا کہ ایک دوسیٹر فلائنگ کلب کا ٹریننگ والا جہاز ھے سفید رنگ کا اور اس نے سمت بدل کر میری سمت آنا شروع کردیا ھے جس طرف سے ٹریفک اسلام آباد جارھی ھے اور تیزی سے جہاز نیچے آرھا ھے اب مجھے سمجھ نہیں لگ رھی تھی کہ کیا کروں یہ کونسی فلم کا سین ھے اگر بریک لگاتا ھوں تو پیچھے والی گاڑیاں پیچھے سے اور جہاز آگے سے ٹکرا جائے گا جہاز کافی نیچے آچکا تھا سوچا اس کے نیچے سے نکل جاتا ھوں ورنہ مرنا تو ھے ھی اور ریس دی ساتھ ھی غلطی سے پانچویں گیئر سے گاڑی دوسرے گیئر میں کردی گاڑی تیز ھونے کی بجائے آہستہ ھوگئی پر میں نکل گیا جہاز کوئی آٹھ سے دس فٹ اوپر تھا اب بیک مرر میں دیکھا تو جہاز کا پائلٹ جہاز کو اٹھانے میں کامیاب ھوچکا تھا اور بلند ھورھا تھا، یہ دوسری دفعہ ایسے ھوا ھے کہ فلم اصل زندگی میں دیکھی ٹانگیں کانپنا تو ایک طرف مناسب وقت لگ گیا دل کی دھڑکن قابو کرنے میں، اور پھر بغیر رکے گھر پہنچ کر ھی دم لیا، کیوں کہ زندگی میں دو فلمیں کافی ھیں ، ایک دفعہ سوچا موبائل سے ویڈیو بنالوں پھر سوچا آخری ویڈیو بنانے سے بہتر ھے زندگی بچانے کی کوشش کی جائے، الحمدللہ گھر پر لیٹا ایک دفعہ پھر لکھ رھا ھوں کہ دوسری دفعہ موت کو اتنے نزدیک سے دیکھا تو کیسا لگا،

Prev قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ
Next بُلھے شاہ اساں مرنا ناہی گور پیا کوئی ہور

Comments are closed.