تحریک عدم اعتماد

تحریک عدم اعتماد
تحریر محمد اظہر حفیظ

ہمارے سر پر ہمیشہ سے ہی عدم اعتماد کی تلوار لٹکتی رہی، پہلے پہل یہ کام والدین سرانجام دیتے تھے۔ کہ یار تو نہیں کرسکتا۔ پھر بہن بھائی بھی اس تحریک کاحصہ ہوگئے۔ میرا بھائی مجھ پر اندھا اعتماد کرتا تھا۔جسنےمجھےکئی دفعہ اندھا ہونے سےبچایا۔
بھائی کی خواہش تھی کہ میں پہلوان بنو۔ اس نے میری کبڈی کی ٹریننگ شروع کردی۔ تیسری جماعت میں پڑھتا تھا وزن بھی کوئی 20 کلو ہوگا۔ بچے کم ہی مجھ سے کھیلتے تھے کہ کہیں گزر ہی نہ جائے ۔ہمارے ایک عزیز ذوالفقار عرف بھٹو جو کہ میرا ہم عمر تھا پہلا میچ اس سے رکھ دیا۔ گراونڈ میں ہلکا ہلکا بجری نما خاکہ پڑا تھا۔ تقریبا ریگ مال کی طرح کا ٹیکسچر تھا۔ بھٹو جان میں تگڑا تھا۔ اسوقت حکومت بھی بھٹو صاحب کی تھی ۔ جس کافائدہ بھٹو نے خوب اٹھایا اور مجھے بہترین طریقے سے رگڑا ہڈیوں پر جو تھوڑا بہت گوشت تھا بھٹو نے رگڑ دیا۔ اور یوں یہ شوق یہیں پر اختتام پذیر ہوا۔ اس وعدے پر کہ گھر میں نہیں بتانا۔ ورنہ عدم اعتماد ہوجائے گی۔ رگڑیں شدید تھیں پر اعتماد کی بحالی کے لئے برداشت کیا، اگلے سال ضیاءالحق نے بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا دے دی اور مجھے لگا کہ میرا بدلہ ضیاءالحق صاحب نے لے لیا ہے۔ پر یہ بھٹو کوئی اور تھا اور لاڑکانہ سے تعلق تھا، ہمارے گاوں والا بھٹو اب بھی زندہ ہے اور یونین کونسل کا چیئرمین ہے۔ جب بھی کوئی نعرہ لگاتا ہے زندہ ہے بھٹو زندہ ہے ۔ میرے علاوہ کسی کو نہیں پتہ کہ یہ کونسے بھٹو کی بات کر رہے ہیں۔ تم کتنے بھٹو مارو گے ہر گھر سے بھٹو نکلے گا۔ یہ بھی میں نے دیکھا دو بھٹو تو ہمارے گاوں میں ہی تھے ایک شاعر افضل ساحر کا بھائی بھٹو ٹھیکیدار اور دوسرا فقیر حسین کا بھائی بھٹو چیئرمین ۔
پانچویں جماعت پاس کی اور راولپنڈی آگئے پھر بھائی نے کوشش کی کہ میں فوج میں چلا جاوں دو دفعہ فوج کا ٹیسٹ دیا کیڈٹ کالج کیلئے اور میں فوج کے اعتماد پر بھی پورانہیں اترا۔ پھر بھائی نےسوچا کہ مجھے سائنسدان بناتے ہیں۔ آٹھویں میں انگلش میں نمبر کم آنے پر مجھے آرٹس سیکشن میں کردیا گیا۔ بھائی کو یقین دھانی کرائی کہ فکر نہ کریں میں جنرل سائنس پڑھ کر بیک وقت جرنل بھی اور سائنسدان بھی بن جاوں گا اس نے اعتماد کیا پر میں اعتماد پر عدم اعتماد لے آیا اور میٹرک کے امتحان میں اسلامیات، اسلامیات اختیاری اور عربی میں فیل ہوگیا
اب تو گھر میں گول میز کانفرنسز شروع ہوگئیں کہ یہ نہیں پڑھ سکتا۔ بندہ انگلش وچ فیل ہوندا اے حساب وچ فیل ہوندا اے اور یہ کونسے مضامین میں فیل ہوگیا ہے اسنے ہمار اعتماد کو بہت ٹھیس پہنچائی ہے ۔ اس کو جنرل سٹور ڈال دیتے ہیں اس کی تیاریاں عروج پر تھیں اور ایک دفعہ پھر عدم اعتماد کا شکار ہوا اور گھر والوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور میں میٹرک میں پاس ہوگیا۔ اب جنرل سٹور والا پروجیکٹ بند ہوگیا اور ایک اور موقع جرنل بننے کا ہاتھ سے نکل گیا اور مجھے کالج میں داخل کروادیا گیا ۔ یہاں عدم اعتماد کی کوشش بہت کی لیکن پہلی دفعہ میں ہی پاس ہوگیا اور نیشنل کالج آف آرٹس چلا گیا ۔ اکثر دوستوں نے عدم اعتماد کا ہی اظہار کیا ۔ پر سانوں کی۔ میرا بھائی ہمیشہ مجھ پر اعتماد کرتا رہا اور میں عدم اعتماد کہیں نہ کہیں سے ڈھونڈ کر لے آتا تھا۔ 30 سال کی عمر میں شوگر سے دوستی ہوگئی اور 51 سال کی عمر میں جگر نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کردی۔ اللہ کے فضل سے اور میری بیٹی کی قربانی کے ووٹ سے اس عدم اعتماد کی تحریک کو شکست ہوئی اور زندگی ایک نئے جگر کے ساتھ شروع ہوگئیں الحمدللہ
پر کچھ جگر چھوڑ کر نکل گئے کہ تم ہماری ترقی میں رکاوٹ ہو اور جو ہمارا جگر تھا وہ تو تم نے نکلوا دیا ۔ اب نئے جگر کا ہم کیا کریں۔ ایک اور عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا تھا کہ تم پہلے والے محمد اظہر حفیظ نہیں رہے۔ جو شخص اپنا جگر بدلوا سکتا ہے اس پر اعتماد کیسے کریں۔ بات تو سچ تھی اور میں نے عدم اعتماد کو قبول کیا اور ان سب کو ترقی کی راہ پر چھوڑ دیا۔ کیونکہ انکو میری نئی زندگی کی خوشی نہ تھی اپنی ترقی کی فکر تھی تو کریں ترقیاں۔ میں بھی کچھ دن اعتماد کے ساتھ جی کر دیکھ لوں ان کے ساتھ جو میرے ساتھ زندہ ہیں اور میں ان کے لئے زندہ ہوں۔ اتنی عدم اعتمادی کی فضا میں سب اعتماد کرنے والوں کا شکریہ۔ ورنہ اعتماد والا تو زمانہ ہی نہیں رہا۔ ہے نا

Prev ریاست مدینہ
Next 8مارچ

Comments are closed.