ریاست مدینہ

رہاست مدینہ
تحریر محمد اظہر حفیظ

مدینہ یقیننا دنیا کا سب سے پرسکون اور مہذب شہر ہے۔
ادب دیکھنا ہو تو مدینہ کی ہوا، ماحول، لوگ، رہن سہن جاکر دیکھئے۔ کوئی بچہ بھی سڑک پار کرنے لگے تو ٹریفک رک جاتی ہے وہ مسکراتے ہوئے آپ کو راستہ دیتے ہیں کوئی ہارن نہیں بجاتا، سب آہستہ آواز میں بات کرتے ہیں، آہستہ آہستہ چلتے ہیں، یہاں تک کہ دوکاندار قیمتیں بھی خود ہی کم لگاتے ہیں تاکہ بحث نہ کرنی پڑے، کہیں کوئی بے حرمتی نہ ہوجائے مجھے یاد ہے میری چھوٹی بیٹی عائشہ ایک سال کی جس دن ہوئی ہم مدینہ میں تھے ، بازار گئے تو اس کا سر ننگا تھا تو ایک دوکاندار نے فورا ایک سکارف دیا کو اس کو پہنا دیں۔ یہ شہر نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم ہے یہ اس کے تقدس کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا کہ ننگے سر بچیاں بازار میں گھومیں۔ میں تو خوف سے کانپ گیا کہ یہ کیا کیا۔ پھر میری تین بیٹیاں اور باقی خواتین پردے کا خاص خیال رکھتی تھیں۔ کہ شہر نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اس کے تقدس کا خیال رکھنا ہم پر فرض ہے۔
ہم مسلمان تو مدینہ سے اتنا خاص لگاو رکھتے ہیں کہ مدینہ کا نام سنتے ہی تعظیما جھک جاتے ہیں ۔
کل ہی ایک واقعہ پڑھ رہا تھا کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے انتقال کے بعد حضرت عمر رضى الله تعالیٰ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو تیسرے دن ایک بچہ انکی خدمت میں حاضر ہوا کہ آپ امیرالمومنین ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اثبات میں سر ہلایا۔ تو بچہ بولا،کہ میرے والد نہیں ہیں ۔ آپ سے پہلےخلیفہ روزانہ ہمارے گھر آتے تھے اور ہماری بکریوں کا دودھ نکال کر ہمیں دیتے تھے کچھ ہم استعمال کر لیتے تھے باقی بیچ دیتے تھے جس سے ہمارے گھر کا نظام چلتا تھا تین دن سے ہم مسئلے میں ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے ارشاد فرمایا کہ پہلے خلیفہ آنے والوں کے لئے کام بہت مشکل کر گئے ہیں۔
میرے وزیراعظم اور پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے خواہشمند وزیراعظم پاکستان عمران خان نیازی صاحب آپ کی زبان سے میری دل آزاری ہوئی میری راہنمائی کیجئے میں کس سے شکایت کروں، وزیراعظم شکایت سیل پر یا پر الله باری تعالی کی عدالت میں ۔
بہ شکریہ جناب زیڈ اے چودھری ۔ جماعت اسلامی والوں کی تحریر کا کچھ حصہ یہاں ریفرنس بنا کر پوسٹ کررہا ہوں۔ شاید ہم سب کلمہ گو کی اصلاح ہو جائے ۔
جیسا کہ سورۃ الحجرات میں بیان ہوتا ہے:
“اور نہ(ایک دوسرے کو) برے القاب سے پکارو۔ ایمان کے بعد گناہ کا نام لگنا برا ہے۔اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم لوگ ہیں”۔(الحجرات۔۴۹:۱۱)
اس آیت میں واضح طور پر اس روئیے کو برا سمجھا گیا اور اس کی مذمت کی گئی ہے اور جو لوگ اس سے باز نہ آئیں انہیں ظالموں کی صف میں شامل کیا گیا ہے۔
برے القاب سے کسی کو پکارنا درحقیقت ایک اذیت دینے کا عمل ہے اور اذیت دینے کی احادیث میں سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ جیسا کہ اس حدیث میں بیان ہوتا ہے:
“مسلمان کو اذیت نہ دو انہیں عار نہ دلاؤ اور ان میں عیوب مت تلاش کرو۔ کیونکہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیب جوئی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عیب گیری کرتا ہےاور جس کی عیب گیری اللہ تعالیٰ کرنے لگے وہ ذلیل ہو جائے گا۔ اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔( جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 2121 )

اسی طرح ایک اور جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان ایذا نہ پائیں۔(صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 9 )

برے القابات سے پکارنا بدگوئی کا ایک پہلو ہے جس کے بارے میں حدیث میں بیان ہوتا ہے ۔”جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے”۔( صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 977 )

برے ناموں سے منسوب کرنا درحقیقت مسلمان کی عزت کی اس قدر بےحرمتی ہے کہ جو کوئی اس حرمت کو نقصان پہنچائے ، اس کی نمازیں تک قبول نہیں ہوتیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
“جو کوئی کسی مسلمان کی آبروریزی کرتا ہے تو اس پر اللہ فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہوتی”۔( صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 440 )

میرا نام میرے والدین نے محمد اظہر حفیظ رکھا ہے جس کا مطلب ہے محمد صلی علیہ وآلہ وسلم کی نمایاں حفاظت کرنے والا۔ میری قوم آرائیں ہے ہم نام کے ساتھ میاں ، مہر یا چوہدری لکھتے ہیں ۔ لیکن میں نہیں لکھتا کہ نام کا مطلب تبدیل ہوجاتا ہے۔
جب لکھنا شروع کیا تو سوچا کوئی قلمی نام رکھ لیا جائے۔ اپنے دوست سجاد انور سے مشورہ کیا کہ قلمی نام کیا رکھا جائے کہنے لگے محمد اظہر حفیظ سے بہتر کیا ہوگا پھر انھوں نے مجھے ایک واقعہ سنایا کہ نہرو صاحب کی ہندوستان میں حکومت تھی اور محمد رفیع صاحب نے سٹیج پر کچھ گا کر سنایا تو نہرو صاحب نے پوچھا رفیع صاحب میں آپ کے لئے کیا کرسکتا ہوں تو رفیع صاحب نے کہا سر آل انڈیا ریڈیو کو احکامات جاری کئے جائیں کہ جب بھی میرا نام پکارا جائے تو محمد رفیع کہا جائے میں جو بھی ہوں محمد صلی علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے ہوں، آڈر جاری ہوئے آپ آج بھی آل انڈیا ریڈیو سنیں تو آواز آئے گی کہ ابھی آپ محمد رفیع کی آواز میں نغمہ سن رہے تھے۔ میرے وزیراعظم یہ ہندوستان کا واقعہ ہے ، اور آپ میلسی پنجاب کے جلسے میں لوگوں کے نام بگاڑ بگاڑ کر قوم کی کیا تربیت کر رہے تھے ۔ آپ تمام ان لوگوں کو سزا دیجئے جو چور، ڈاکو اور ڈیزل کے پرمٹ بیچتے رہے ۔ آپ بااختیار وزیراعظم ہیں نہ کہ کسی مزاحیہ پروگرام کے کردار۔ اس سلسلے میں اپنی ٹیم کی بھی تربیت اور راہنمائی کیجئے ۔ آپ پہلے ہمارے کپتان تھے، پھر انگلینڈ کی یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے اب وزیراعظم پاکستان ہیں یہ سب آپ کو اور کسی کو بھی زیب نہیں دیتا۔
نہ ہی ہمارے پاس کوئی اختیار ہے کہ کسی کو برے نام یا لقب سے پکاریں یا کسی کانام بگاڑیں اسکی جسمانی کمی یا معذوری کی بنیاد پر نام رکھیں۔
دوسری جانب کچھ القاب ایسے ہوتے ہیں جو کسی شخص کو عزت دینے، اس کا رتبہ بڑھانے یا بیان کرنے یا اسے عزت و توقیر کے لئے دئیے جاتے ہیں۔ جیسے فاروق، صدیق، غنی، قائد اعظم ،علامہ وغیرہ۔ ان میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں ہے۔
میری محترم وزیراعظم صاحب سے درخواست ہے ریاست مدینہ کے پہلے اقدام کے طور پر بات کرتے وقت احترام اور شائستگی کے پہلو کو خاص طور پر ملحوظ خاطر رکھا جائے ۔اور سب کو اسکا پابند بنایا جائے۔ جزاک الله خیر

Prev ایمرجنسی وارڈ
Next تحریک عدم اعتماد

Comments are closed.