جس نے سبق یاد کیا

جس نے سبق یاد کیا
تحریر محمد اظہر حفیظ

ھمیشہ سے سنتے آئے ھیں جس نے سبق یاد کیا اسکو چھٹی نہ ملی۔
اب اس کی عمدہ مثال بھی دیکھ لی۔ سابقہ ادوار میں جس جس نے بڑھ چڑھ کر کام کیا وہ یا ملک سے باھر ھے یا پھر جیل کے اندر، وہ سیاسی شخصیت ھو یا پھر بیوروکریسی کا حصہ، سلیبس دونوں کا یکساں ھے، بتاو کام کیوں کیا اور مان جاو کہ کتنا کھایا، اور کچھ نہیں تو سرکاری گواہ بن جاو، سب کو سزا دلواو۔ اب اتنا نیک کون بنے۔ کسی کا جرم گردوں کا ھسپتال بنوانا ھے، کسی کا جرم دل کا ھسپتال بنوانا ھے، کسی کا جرم اورنج ٹرین ھے، کسی کا جرم میٹرو بس سروس ھے،کسی کا جرم موٹرویز بنانا ھے، کسی کا جرم سی پیک ھے، کسی کا جرم ایٹمی دھماکے ھیں، کسی کا جرم گوادر بندرگاہ ھے، کسی کا جرم لاھور ھے، کسی کا جرم میزائل بنانا ھیں، کسی کا جرم طیارے بنانا ھیں، کسی کا جرم ملتان ھے، کسی کا جرم کراچی ھے، کسی کا جرم لاڑکانہ ھے، کسی کا جرم بلوچستان ھے، کسی کا جرم شہید ھونا ھے، کسی کا جرم سچ بولنا ھے، کسی کا جرم محب وطن ھونا ھے، کسی کا جرم غدار ھونا ھے، کسی کا جرم جج ھونا ھے، کسی کا جرم غریب ھونا ھے، کسی کا جرم باریش ھونا ھے، کسی کا جرم ایماندار ھونا ھے، کسی کا جرم بیٹی ھونا ھے، کسی کا جرم بھائی ھونا ھے، کسی کا جرم بہن ھونا ھے، کسی کا جرم یونیورسٹی میں وزیراعظم ھاوس بنوانا ھے، کسی کا جرم ڈیم بنوانا ھے، کسی کا جرم شہر آباد کرنا ھے، کسی کا جرم سمندر سے پیٹرول نکالنا ھے، کسی کا جرم پوری بجلی دینا ھے، کسی کا جرم ڈالر سستا کرنا ھے، کسی کا جرم بجلی سستی کرنا ھے، کسی کا جرم ڈینگی مچھر کا علاج ھے، کسی کا جرم والڈ سٹی لاھور بنانا ھے، کسی کا جرم ڈاکٹر ھونا ھے، کسی کا جرم وکیل ھونا ھے، لیکن جہازوں کا گرنا، ٹرین کے حادثے، کرونا وائرس یہ سب قدرتی آفات ھیں۔ اتنی کوئی فکر کی بات نہیں، الحمدللہ پہلی دفعہ ھم چائنہ سے نمبر گیم میں آگے نکلے ھیں ھم فخر سے کہہ سکتے ھیں کہ ھم کم ترقی یافتہ ملک ھوتے ھوئے بھی کرونا کے مریضوں میں چائنہ سے آگے نکل چکے ھیں اور ھم دنیا میں ایک دن کرونا کے مریضوں میں نمبر ون قوم بنیں گے۔
موجودہ حکومت کسی بھی کام کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ھے اور نہ ھی بیوروکریسی کچھ کرنے کو تیار ھے۔ جس کا فائدہ ھی فائدہ ھے۔
پرانی کہاوت مشہور ھے ایک ھیجڑا فوت ھوگیا۔ قبر میں دو فرشتے آئے کہ اٹھو حساب دو تو اس بیچارے نے کہا کس چیز کا حساب، دیا کیا تھا۔ جس کا حساب دوں ۔
اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو آپ حیران ھونگے کہ جتنے وزیر، مشیر اس حکومت کے سمجھدار ھیں شاید ھی کسی دور میں آئے ھوں۔ یہ شدید تجربہ کار خواتین و حضرات ھیں ھر حکومت کا حصہ رھے ھیں۔ اپنے تجربے کی بنیاد پر وزیر اعظم صاحب کی راھنمائی کرتے ھیں کہ کچھ بھی کریں گے تو نقصان ھوگا بہتر ھے کچھ نہ کریں اور اسطرح اگلی حکومت میں ھر طرح کے سوال و جواب سے بچے رھیں ۔ شکر الحمدللہ یہ اس حکومت کی کامیاب پالیسی ھے، ھماری تقریبا سات لاکھ فوج ھے جو سرحدوں کے ساتھ ساتھ ملکی انتظامات پر بھی نظر رکھتی ھے ھر جگہ ھنگامی طور پر امداد کیلئے بھی پہنچتی ھے اور نظر بھی آتی ھے۔
ساڑھے دس لاکھ ٹائیگرز جو کہ سلیمانی ٹوپی پہنے سارے ملک کی مدد کو پہنچے، نہ مدد نظر آئی اور نہ ھی ٹائیگرز، میں خیال ھوں کسی اور کا مجھے چاھتا کوئی اور ھے ،
جیسے کہ ایک صاحب ٹرین میں بیٹھے تھے گود میں ایک تالا لگا گھی والا کنستر رکھا تھا۔ ساتھ والے صاحب گویا ھوئے جناب سامان سیٹ پر یا فرش پر رکھ لیں تھک جائیں گے۔ جی میں ایسے ھی ٹھیک ھوں۔ اب انکا تجسس بڑھا کیا کوئی قیمتی چیز ھے، نہیں جی بس ایک نیولا بند کیا ھوا ھے، وہ کیوں۔ آپ نے مسافر ٹرین میں نیولا ساتھ رکھا ھوا ھے خیر تو ھے نا۔
جی دراصل مجھے خیالوں میں بہت زیادہ سانپ نظر آتے ھیں میں ڈرنے کی بجائے کنستر کھول کر نیولا ان پر چھوڑ دیتا ھوں یا تو سانپ بھاگ جاتے ھیں یا پھر نیولا انکو ھلاک کردیتا ھے، پر سانپ تو آپکو خیالوں میں آتے ھیں اور نیولا اصل میں رکھا ھوا ھے ، نہ جی نہ یہ بھی خیالوں میں ھی رکھا ھوا ھے۔
بس کیا بتاوں، کروڑوں نوکریاں، لاکھوں گھر، عوام خوشحال، اچھا خیال ھے۔ کم از کم ڈبہ ھی کھول دیں ھماری غلط فہمی تو بھاگ جائے یا ھلاک ھوجائے۔ ھم ھلکا ھلکا گبھرانا شروع ھوگئے ھیں میرے کپتان ۔
کوئی نیا خیال یا کوئی نیا خطاب ھوجائے۔

Prev غازی مسجد بھونگ
Next خواجہ شہزاد خالد

Comments are closed.