خواجہ شہزاد خالد

خواجہ شہزاد خالد
تحریر محمد اظہر حفیظ

نیشنل کالج آف آرٹس میں داخل ھوئے تو کچھ سینئرز پہلے سے واقف تھے جن میں عتیق احمد، شندانہ یوسف شامل تھے یہ دونوں میرے راولپنڈی آرٹس کونسل کے کلاس فیلوز تھے راحت سعید میرے بڑے بھائی کے کلاس فیلو اور ساجد سعید میرے کلاس فیلو کے بڑے بھائی بھی تھے اس طرح فائنل ائیر میں مظہر بھائی، انجم بھائی، ساجد بھائی، اسد بھائی، خالد بھائی، استاد اظہر شیخ، استاد زاھد ان سب سے دوستی راحت بھائی کی وجہ سے ھوگئی،
ساری سیکنڈ ائیر سے دوستی عتیق اور شندانہ یوسف کی وجہ سے ھوگئی۔
بعد میں خواجہ شہزاد، حامد پیا، عاصم یاماھا، ضمن ارمغان حاضر، فرحی، محبوب بنگش، آر ایم نعیم، اقرار چیتا، عاطی میاں، سلمان لمبا، نیلم، محمد منیر، آرچی اور بہت سے سینئرز سے دوستی ھوگئی، سیکنڈ ائیر آرکیٹیکچر سے دوستی زیادہ اس لئے ھوتی ھے کہ انکی ڈگری پانچ سال کی ھوتی ھے اور ڈیزائن اور فائن آرٹ کی چار سال کی اسطرح سیکنڈ ائیر آرکیٹیکچر والے آپ کے اگلے چار سال کلاس فیلو رھتے ھیں۔
یہ چار سال ھی زندگی کا سرمایہ ھوتے ھیں۔ ھر بندہ فنکار ھوتا ھے اسی لئے اس کو داخلہ ملتا ھے۔ پر چند لوگ ایسے ھوتے ھیں جن سے کسی کو کوئی شکایت نہیں ھوتی، وہ ھر ایک کی خوشی اور غم میں شریک ھوتے ھیں سب کے ساتھ ھنستے بھی ھیں اور روتے بھی ھیں۔ سینئرز میں سید جعفر حسین عابدی ایک ایسی شخصیت ھیں اور انکے بعد ایک اور شخص غیر متنازعہ نظر آیا وہ تھا خواجہ شہزاد خالد،
خواجہ شہزاد نے 1987 میں فائن آرٹس میں داخلہ لیا پھر فرسٹ ائیر دوبارہ کی اور 1988 میں آرکیٹیکچر میں داخلہ لے لیا، کالج کچھ عرصہ ہنگاموں کی وجہ سے بند رھا اور یوں 1989 میں یہ لوگ اپنی تعلیم شروع کر سکے۔
خواجہ اصل میں نستعلیق قسم کا انسان تھا ۔ اسکے ھمیشہ کپڑے صاف ستھرے، بال کنگھی ھوئے، مونچھیں ترچھی ھوئیں، شیو روزانہ، جوتے صاف، نہایا دھویا ھوا شخص تھا۔ کسی کی دل آزاری نہیں کرتا تھا،
جب بھی ملا مسکرا کر ملا۔ خواجہ دیکھنے میں ایک بیوروکریٹک شکل کا انسان تھا جیسے کوئی کمشنر ٹائپ کی ایٹم ھو۔ وہ آرٹسٹ کم پڑھا لکھا زیادہ نظر آتا تھا۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ نیئر علی دادا ایسوسی ایٹس میں بھی کام کرتا تھا، 1995 سے 1997 خواجہ نے یونین بینک جائن کرلیا پھر اس کے بعد خواجہ پیس مال میں سلیمان تاثیر صاحب کے ساتھ بھی کام کرتا رھا، ایک سال کیلئے خواجہ لیبیا چلا گیا واپس آکر اس نے اپنی آرکیٹیکچر فرم سٹارٹ کرلی ، پھر 2012 میں حامد شہزاد ڈیزائن اسٹوڈیو کے نام سے حامد پیا اور خواجہ شہزاد نے پارٹنرشپ کرلی اور گلبرگ میں دفتر بنا لیا، خواجہ عام انسان نہیں تھا، بہت رحم دل نیک انسان تھا اور ھاتھ کا بھی بہت کھلا تھا کئی دفعہ تو اسے ادھار لیکر بھی دوستوں کی مدد کرتے دیکھا۔ اس کو بہت سے فن آتے تھے جس کی وجہ سے وہ ھردلعزیز ھوتا گیا، اس کے اپنے ھم عصر لوگوں کے علاوہ بچوں اور بڑوں سب سے اسکی دوستی تھی، وہ ایک اچھا پینٹر، اچھا باغبان، اچھا فلم بین، اچھا داستان گو، اچھا باپ، اچھا بیٹا، اچھا دوست، اچھا شوھر، اچھا کاروباری، اچھا سیاح، اچھا میوزک سننے والا، اچھا لباس پہننے والا انسان تھا سب اس سے تعلق رکھنا چاھتے تھے۔ بھابھی کرن بھی اس کو اپنے ذوق کے مطابق مل گئیں ۔ جو کہ ایک عمدہ فیشن ڈیزائنر ھیں اور انھوں نے خواجہ شہزاد خالد کی خوش لباسی کو چار چاند لگا دیئے دونوں ایک دوسرے پر جان واری کرتے تھے ایک مکمل خاندان تھا تین بچے اور بھابھی۔ خواجہ بہت خوش تھا۔ 1993 میں ھم سب نیشنل کالج آف آرٹس لاھور سے فارغ ھوگئے لیکن رابطے بلکل ویسے ھی تھے، جیسے کہ ھونے چاھیئں، خواجہ شہزاد سے ریگولر رابطہ تھا ٹیلی فون، واٹس ایپ تصویریں بھیجنا لطیفے بھیجنا اس کی عادت تھی بیٹے دونوں ایچیسن کالج لاھور میں تھے بڑا بیٹا انزا شہزاد ماشاء اللہ جاپان سے بزنس کی تعلیم حاصل کرکے وھیں بینک میں آفیسر ھے اور بیٹی قطر میں ایک امریکن یونیورسٹی کی طالبہ ھے بچے خواجہ کے سب ھی لائق ھیں ماشاء اللہ، باپ جو اتنا شاندار تھا، مجھے اکثر کہتا یار اظہر کدی ساڈے اتے وی ایک مضمون لکھ دے “میں تے میرے یار” محمد منیر، حامد، عاصم، آرچی سب پر لکھ۔ خواجہ جی ضرور ایک دن لکھاں گا، ویکھ یار دیر نہ کر دئیں، مجھے یاد کرواتا اوئے تجھے یاماھا یاد ھے نا یار وہ فوت ھوگیا۔یعقوب قوبہ جن وی فوت ھوگیا۔ سلمان پیرزادہ بھی فوت ھوگیا۔ضمن نے ڈگری مکمل نہیں کی تھی ایک دن اسکے گھر گیا تو چھت پر کچھ کام کر رھا تھا، ضمن کیا سین ھے یار کہیں سے پانی آرھا ھے، بغیر ڈگری کے جگر کام میں فرق رہ جاتا ھے، خواجے سے مشورہ کر لے، دفع ھو یہاں سے آیا وڈا خواجے دا گواہ، میں نے خواجے کو فون کیا یار ضمن بہت پریشان ھے چھت سے پانی کی سیپچ آرھی ھے، تجھے تو پتہ ھے اسکی ڈگری بھی نہیں ھے ۔ اسکی تھوڑی راھنمائی کردینا، خواجہ ھنسنے لگا اوئے توں کیوں مینوں گالاں پوانیاں اسدے کولوں، پھر خواجے نے اس کے گھر کو حامد کے ساتھ وزٹ کیا مشورہ بھی دیا، مجھے ضمن کا فون آیا وہ تیرا باپ خواجہ آیا تھا تو باز نہیں آسکتا، سوری تجھے بلانا بھول گیا خوب شغل رھا، شکریہ یار ملاقات ھوگئی، اچھا پھر تجھے ڈگری نہ ھونے کا احساس ھوا، دفع ھوجاو کتے، اور پھر خوب ھنسے،16 فروری کو خواجے کی سالگرہ ھوتی ھے مبارک باد دی لمبی بات بھی ھوئی۔ چار دن بعد 20 فروری 2020 کو نذر محی الدین بھائی کا میسج آیا کہ خواجہ شہزاد خالد کی طبعیت ٹھیک نہیں ھے دعا کریں تھوڑی دیر میں فوتگی کا میسج آگیا، مجھے کبھی یقین ھی نہیں آیا کہ وہ فوت ھوگیا ھے بس بلاوجہ یاد کرکے رو دیتا ھوں ، کچھ عرصے بعد خواجہ کے والد صاحب کا بھی انتقال ھوگیا، اللہ ان دونوں کی بخشش کریں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کریں آمین اور گھر والوں کو صبر جمیل عطا کریں آمین ۔ اس کے نمبر پر پہلے کی طرح اپنی تحریریں بھیجتا رھتا ھوں، ایک دن اپریل میں بھابھی کرن کا میسج آیا بھائی انکا 20 فروری کو انتقال ھوگیا تھا، میں نے روتے ھوئے لکھا باجی مجھے معلوم ھے پر یقین نہیں آتا اس لئے اپنی تحریریں اسکو بھیجتا رھتا ھوں، کہنے لگی وہ اکثر آپ کا ذکر کرتے تھے کبھی لکھیں نا ان پر بھی، جی باجی کوشش کروں گا پر بہت مشکل کام ھے ۔ میرے دوست اور بھائی برگیڈئیر یوسف اعوان کا ایک دن میسج آیا بھائی جی ضروری تو نہیں ھے دوستوں کی وفات کے بعد ان پر لکھا جائے یہ نیک کام زندگی میں بھی کرلیا کریں، اس دن بھی مجھے خواجہ شہزاد خالد بہت یاد آیا کہ میں نے لکھنے میں کتنی دیر کردی، پچھلے تیس سالوں میں خواجہ شہزاد خالد سے کوئی تلخ یاد وابستہ نہیں ماسوائے اس کے کہ وہ جلدی چلا گیا۔ اس نے اگلے جہاں میں بھی سب سے تعلق استوار کرلئے ھونگے کیونکہ یہ فن اسکو بخوبی آتا تھا، خواجہ خالد شہزاد سے دوستی کے بعد زندگی میں جتنے بھی خواجہ صاحبان آئے انکا ھمیشہ خواجہ شہزاد خالد کی وجہ سے احترام کیا اور انکو بھی ھمیشہ اچھا ھی دیکھا، یقین جانیں سارے خواجے ھی شاندار انسان ھوتے ھیں۔ اور پیار کئے جانے کے قابل ھوتے ھیں

Prev جس نے سبق یاد کیا
Next امی جی

Comments are closed.