خوش فہمی

خوش فہمی

تحریر محمد اظہر حفیظ

میری دوست کہنے لگی یار تم بہت خوش فہمی میں مبتلا انسان نما چیز ھو، کبھی تم اپنے آپ کو ڈیزائنرر سمجھنے لگتے ھو کبھی تم اپنے آپ کو فوٹوگرافر سمجھنے لگتے ھو کبھی تم اپنے آپ کو استاد سمجھنے لگتے ھو کبھی تم اپنے آپ کو لکھاری تصور کرنے لگتے ھو، کبھی تم اپنے آپ کو ڈاریکٹر سمجھنے لگتے ھو کبھی تم اپنے اپ کو اچھا باپ سمجھتے ھو، کبھی تم اپنے آپ کو اچھا، دوست سمجھنے لگتے ھو، کبھی تم اپنے آپ کو اچھا، بیٹا سمجھنے لگتے ھو کبھی تم اپنے آپ کو اچھا شوھر سمجھتے ھو کبھی تم اپنے آپ کو اچھا بھائی سمجھنے لگتے ھو کبھی تم اپنے آپکو، عقل مند، سمجھنے لگتے ھو لیکن تم صرف اور صرف ایک خوش فہم انسان ھو اور کچھ نہیں تو، میں نے اسکو بتایا ھمارا ایک دوست اسلام آباد آیا بہت معصوم انسان تھا ھم نے اسکی معصومیت کو دیکھتے ھوئے اسکا، نام لیلا رکھ دیا، جو بکری کے بچے کو، کہتے ھیں ھم نے لیلے کو، بہت تنگ کیا، تو، وہ اسلام آباد سے واپس لاھور چلاگیا وھاں جاکر، سٹیج کے آرٹسٹوں کو میری تصویر، دکھا، کر پوچھتا، رھا اسکا، کیا، کرنا، ھے اخر، اسکو، اسکے سوال کا، جواب مل گیا، اور کچھ ماہ بعد وہ سب دوستوں کے ساتھ واپس اسلام آباد، آیا میرے دوست ضمن ارمغان حاضر، کو، فون آیا جگر کوئی دس پندرہ بندوں کے کھانے کا آنٹی کو کہہ دینا جی اچھا اب ضمن جناح سپر، سے چلا ٹیکسی والوں کو، جناب جگر، کے گھر چلیں کھانا بھی کھلائیں گے، اور کرایہ بھی دیں گے سب دوست اگئے بمعہ تین ٹیکسی ڈرائیوروں کے، لیلے بڑی ھمت ھے تیری تو، بھی آگیا ھے یار روٹی کھا لین دے فر تیرا بندوبست کردا واں جی اچھا، کھانا کھانے کے بعد، گویا، ھوا ایک دن اللہ باری تعالٰی نے فرشتے نوں بلایا تے کجھ سمجھایا انج دی ایک شے بنا فرشتہ کئی دن لگا رھیا کالے رنگ دی کالی سیاہ مٹی اس وچ فر کالی پالش پائی فر اسنوں ایک شکل دیتی بوٹ ورگی آخر اس شے نوں بناون وچ کامیاب ھوگیا،تے الله باری تعالیٰ نوں شے ویکھا، کے پوچھیا جی اللہ میاں جی کی حکم اے اس وچ، تسمے پا دیئے اللہ تعالٰی نے حکم صادر، کیتا نہیں اس وچ، جان پادیو تے نام محمد اظہر حفیظ رکھ دیئو تے اس طرح جناب اس دنیا وچ آئے سب ھنسے لگ گئے اور میں ھنستا ھنستا گھر اندر، ایا امی جی کی گل اے ماشاءاللہ سارے بڑے اوچی اوچی ھنس، رھے نے میں نے امی کو ساری کہانی سنادی امی ھنسنے لگی اور کہنے لگی لیلے نو، اندر، بلا، میں ڈرائنگ روم گیا، لیلے اندر، آ امی جی نے تینوں بلایا اے امی جی بہت کم مردوں کے سامنے جاتی تھیں بہت سخت پردہ کرتی تھیں لیلا، اندر، آیا، سلام ماں جی، امی جی نے اسکو پیار دیا اور ھنستے ھوئے کہنے لگیں بیٹے تیری گل بہت سوھنی اے، کتھوں سوچی ھنس، کے اس نے ساری بات امی جی کو بتا، دی کہہ کیسے ھم اسکو، ذلیل کرتے تھے اور اسنے بدلہ لینے کی ٹھانی اور آج کامیاب ھوگیا لیکن ماں جی اننوں اے گل تہانوں نہیں دسنی چاھی دی سی، جب میں نے یہ بات، اپنی دوست کو سنائی تو، وہ رونے لگی اور کہنے لگی تم کیا چیز، ھو کچھ بھی تم پر اثر نہیں کرتا، تم کو کوئی اپنا، نہیں سمجھتا سب تم سے فائدہ اٹھاتے ہیں تم سب کو خوش آمدید، کہتے ھو تو کیا غلط کرتا ھوں آپ ھی بتاو بس، یہ بتا دو یہ سب کیسے کرتے ھو، تمھاری کوئی انا نہیں تم سب کیسے برداشت، کرتے ھو گفتگو، کچھ سنجیدہ ھوئی تو، میں گویا، ھوا میں کیا، میری اوقات کیا میں صرف ایک عاشق رسول صلی الله عليه وسلم ھوں اور کچھ نہیں اچھا تو تم پر، تو، کبھی کسی بڑھیا نے نے کوڑا، نہیں پھینکا کاش، کوئی پھینک دے اور، میں اپنے رسول صلی الله عليه وسلم کی پیروی کرتے ھوئے اس، کی عیادت کرنے جاؤں اور یہی میری بخشش کا ذریعہ بن جائے اور میں بھی شفقت رسول صلی الله عليه وسلم کا حقدار ٹھہروں اسکے سوا تو، میں کیچڑ سے بھرا ھوا بوٹ ھی ھوں جس کے تسمے بھی کھلے ھوئے، ھیں اور جرابیں بھی بدبودار ھیں وہ پھر گویا ھوئیں تم ھو، بہت خوش فہم اور تم نے اسی طرح اپنی معافی کروا لینی ھے اتنی معافی نہ مانگا، کرو، میرے پاس اور مانگنے کو ھے ھی کچھ نہیں شائد مل جائے معافی تم بھی مجھے معاف کر دینا میرا اللہ بھی معاف کردے گا یہ لکھ رھا، ھوں اور باھر سے فجر، کی اذان کی آواز آرھی ھے لگتا ھے میری معافی ھو گئی ھے جو میرے کان آذان کی آواز سن رھے ھیں اور میری سماعتیں اور ساعتیں ابھی باقی ھیں، ھاں ھاں میں ایک خوش فہم مسلمان ھوں انسان ھوں اور عشق رسول صلی الله عليه وسلم ھی میری ڈوبتی کشتی کو یقین پار لگانے کا باعث بنے گا انشاءاللہ

Prev ماں 
Next یتیم اور مسکین

Comments are closed.