دنیا ایک اسٹیج

دنیا ایک اسٹیج
تحریر محمد اظہر حفیظ

دنیا ایک سٹیج ھے سنا تھا دیکھنا ابھی شروع کیا، میں بھی ایک اسٹیج پر کھڑا ھوں گول دائرے ھی گول دائرے لگے ھوئے ھیں ایک دائرے سے دوسرے دائرے میں چھلانگ لگاتے ھوئے محسوس کر رھا ھوں یہ بھی شاید دنیا ھے کیونکہ کسی سیانے نے کہا تھا دنیا گول ھے اور شاید میں ایک دنیا سے دوسری دنیا میں چھلانگیں لگا رھا ھوں کتنی چھوٹی سی ھے یہ کائنات تین تین فٹ کے فاصلے پر ایک اور دنیا، سب سے پہلے دائرے میں چھاپر پڑا تھا مجھے سمجھ آگئی یہ زمین ھے دوسرا مکمل خشک تھا شاید مریخ تھا، تیسرے میں سفید چونا بکھرا پڑا تھا شاید چاند ھو سوچتے ھوئے اور پاوں رکھتے ھوئے مجھے شرم محسوس ھوئی چندا ماموں پر پاوں رکھ دیا سوری بولا جوتے اتاردیئے کہ ماموں سمجھیں ٹانگیں دبا رھا ھے جب اگلی دنیا میں جانے کیلئے دوبارہ جوتے پہننے لگا تو جوتے نہیں تھے شاید سالیاں لے گئیں تھیں، ننگے پاوں جب اگلے دائرے میں پاوں رکھا تو وہ شاید سورج تھا کیونکہ شدید گرم تھا سوچا چلو کرونا وائرس ھی مر جائے گا۔ سنا ھے گرم موسم سے کرونا مر جائے گا اور کھڑا رھا۔ شاید نیچے کوئی چولہا لگا تھا دودھ گرم کرنے والا، مجھے یاد آیا عبیرہ اظہر صبح ھی پوچھ رھی تھی بابا جی یہ سیارے کیا ھوتے ھیں میں اس کو سیارے اور ستارے کا فرق سمجھا رھا تھا پوچھا کیا ھوا کہنے لگی آن لائن کلاس میں باجی کی دوست کہہ رھی تھی شاید قیامت آجائے ایک سیارہ جلد ھی زمین سے ٹکرائے گا اور دنیا تباہ ھوجائے گی، بابا جی وہ کیسے ٹکرائے گا، بیٹے یہ سب اپنے اپنے محور پر چل رھے ھوتے ھیں اگر محور سے نکل جائے تو زمین سے ٹکرا سکتا ھے اچھا بابا جی ، یہ سوچ کر میری تو ٹانگیں ھی کانپ گئیں، اب ایک دنیا سے دوسری دنیا پر چھلانگ لگانے کی بجائے میں نے آھستہ سے پاوں رکھنا شروع کردیا کہ کہیں میری بے احتیاطی سے یہ محور سے ھی نہ نکل جائے، میرا وزن جو زیادہ ھے، باو جی ذرا جلدی کریں اور بھی لوگ دائروں میں کھڑے ھیں تسی شٹاپو کھیلنا شروع کیتا ھویا اے، پاکستانی وی عجیب عوام اے ھر شے وچ سواد لبنا شروع کر دیندی اے، ھن اس بابے نوں ھی ویکھ لو لین دودھ، دھی آیا اے تے کھیلن شٹاپو دیا اے، میری باری آئی میں نے دو کلو دھی لیا اور دو کلو ھی دودھ اور پیسے ادا کیئے اور اگلی کائنات پر آگیا۔
مجھے منیر نیازی مرحوم بہت یاد آئے ،
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
میں اب ایک اور گلیکسی میں داخل ھوچکا تھا یہ چھوٹی چھوٹی کائنات رب والی کائنات نہیں تھیں بلکہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات صاحب کی تخلیق کردہ حفاظتی کائنات تھی تین تین فٹ کی دوری پر دائرے تاکہ لوگوں کو کرونا وائرس سے بچایا جاسکے۔ بس اب کے پانچ کلو آلو اور پانچ کلو پیاز لیے ساڑھے سات سو ادا کئے اور نکل آیا۔ گھر پہنچا تو بیوی کہنے لگی بہت مہنگی سبزی لائے ھیں، میں نے عرض کی میری جان جو دنیا اس نے دکھائی ھے کسی نے نہیں دکھائی، میرا دل ھی نہیں کیا پیسے کم کروانے کو۔ بغیر ٹکٹ اتنے سیاروں، ستاروں کی سیر اور حفاظتی حصار میں رھتے ھوئے۔ سب نے ماسک پہنے ھوئے تھے اور کچھ نے پلاسٹک کے دستانے بھی۔
شاید اسطرح زمین پر کچھ آبادی بچ جائے احتیاط کرنے سے، ورنہ اس کو مریخ اور چاند سورج بننے سے کوئی نہیں روک سکتا، اپنے اپنے دائرے میں رھیئے بے شک گھر میں رھیئے اسی میں زندگی ھے ھماری بھی اور اس سٹیج کی بھی۔ اللہ ھم سب کیلئے آسانیاں کردیں۔ امین

Prev میں کہاں ھوں
Next وقت

Comments are closed.