وقت

وقت
تحریر محمد اظہر حفیظ

فورڈ کار کمپنی دنیا کی بڑی صنعتوں میں شمار ھوتی تھی اور اس کا بڑا نام تھا۔ اور اس کا مالک دنیا کے امیر لوگوں میں شمار ھوتا تھا۔ چھوٹے تھے تو تایا جی میاں منیر احمد مجھے بتا رھے تھے اظہر کاکا تجھے پتہ ھے اس کے پاس دنیا جہاں کی تمام سہولیات تھیں ۔ گھر، دفتر، مال و دولت، نوکر گویا جو سوچو سب تھا۔ پر وہ کھا کچھ نہیں سکتا تھا۔ میرا تو حیرانی کے مارے منہ کھلے کا کھلا رہ گیا، تایا جی یہ کیسے ممکن ھے سب ھو اور کھا کچھ نہ سکے۔ کاکا ھم آٹے سے کیا چھان کر نکال پھینکتے ھیں۔ تایا جی بورا ۔ تایا جی پھر گویا ھوئے، کاکا وہ بورے کی روٹی اور ڈبل روٹی کھاتا ھے۔ تایا جی ھم تو اتنے امیر بھی نہیں ھیں۔ ھم تو پراٹھے، پوڑے، روٹی،میٹھے پکوان، چاول، سالن، گوشت، مرغی، پھل، سبزیاں، کھیر، زردہ، سویاں سب کھاتے ھیں۔ شکر الحمدللہ، وہ بیچارا یہ سب کیوں نہیں کھا سکتا، اتنے پیسوں کا کیا فائدہ، جو کچھ بھی اپنی مرضی سے نہیں خرید سکتا۔ کاکا تجھے کیسے سمجھاوں۔ ایک تو تم سوال بہت کرتے ھو۔ اچھا ناراض نہ ھوں۔ اب سوال نہیں کروں گا، آپ اور بتائیں اس چاچے کے بارے میں جو فورڈ کمپنی کا مالک ھے۔ کاکا وہ بیمار ھے۔ ڈاکٹروں نے منع کیا ھوا ھے جی اچھا۔
ھم ساری دنیا کے رھنے والے آج فورڈ کمپنی کے مالک کی طرح ھیں، جہاز ھیں، موٹرویز ھیں، گاڑیاں ھیں، ریل گاڑیاں ھیں پر سفر نہیں کر سکتے، شاپنگ مالز ھیں، دوکانیں ھیں، ریسٹورانٹس ھیں، کلب ھیں،میدان ھیں، سیرگاھیں ھیں، نہ کچھ خرید سکتے ھیں نہ کھا سکتے ھیں سب بند پڑا ھے۔ ھم سب ھی یہ سمجھ رھے تھے کہ ھم بہت اھم ھیں پر اب اندازہ ھوا یہ بھی ھمارا وھم ھے۔ مارکیٹیں، پارک، پلازے، بازار، منڈیاں، آڑھتیں، فیکڑیاں، بیوٹی پارلر، ریسٹورانٹ، فوڈ سٹریٹ، سٹاک مارکیٹ، بینک، دولت سب کچھ ھے پر بند ھے۔ میری بہن بچوں ساتھ آئی ھوئی ھیں جس دن لاک ڈاون شروع ھوا ایک دن پہلے ھی کہا کہاں فلائنگ کوچ پر جاو گی میں خود چھوڑ کے آوں گا اپنی باجی کو، گاڑی، پٹرول،ٹائر، ماسک سب ریڈی ھے پر جا نہیں سکتے۔ راستے بند ھیں، ٹرانسپورٹ بند ھے، ایک شہر سے دوسرے شہر جانا بند ھے۔
یہ میرا رب ھی ھے جب انسان سوچتا ھے سب میرے بس میں ھے تو اسکو اسکی بے بسی دکھادیتا ھے۔ کیونکہ قادر مطلق تو میرا رب ھے۔ آج خوشنود علی خان صاحب نے ایک ویڈیو بھیجی جس میں محمد رفیع صاحب کے گانے کے بول ھیں
“وقت سے دن اور رات،
وقت سے کل اور آج،
وقت کی ھر شے غلام،
وقت کا ھر شے پہ راج،
وقت کی پابند ھیں آتی جاتی رونقیں،
وقت ھے پھولوں کی سیج،
وقت ھے کانٹوں کا تاج،
آدمی کو چاھیئے وقت سے ڈر کر رھے،
کون جانے کس گھڑی وقت کا بدلے مزاج ،
پتہ نہیں کیوں سنتے ھوئے میں رو دیا کیونکہ ساتھ ساتھ وہ چائنہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، سعودیہ، ایران، امریکہ، انگلینڈ، روس، انڈیا، پاکستان سب کے بازار، سڑکیں،پل دکھا رھے تھے سب ایک ھی طرح بند تھے، کوئی فرق نہیں تھا، وقت کا مزاج بدل گیا ھے اور ھم سب رنگ ونسل کا فرق جانے بغیر، سرحدوں کی پہچان کیے بغیر مر رھے ھیں، سب بے بس ھیں اور بے شک میرا رب ھی قادر مطلق ھے ، جسے چاھے عطا کرے جس سے چاھے واپس لے لے، کہاں گئے وہ سب طاقت کے نشے میں چور منہ چھپاتے پھر رھے ھیں سب ھی پردہ نشیں اور گوشہ نشیں ھیں، نہ کوئی پردے کے خلاف بول رھا ھے۔ نہ اب کسی کا جسم ھے نہ کسی کی مرضی ھے بس ایک ھی طرح کے ماسک ھیں اور گھر ھیں ۔ کوئی پیزا، برگر، پاستہ نہیں ھے بس جو گھر میں بنے وہی بہتر ھے۔ جس نے بے شمار لوٹا، جمع کیا اور جو خالی جیب ھے دونوں کا ڈر، خوف، علاج ایک ھی ھے گھر پر رھنا، ھاتھ دھونا، ماسک پہننا۔
معافی مانگو اس نشے کی جس کو طاقت کا نشہ کہتے ھیں۔ اور سجدہ کرو صرف اسکو جو اس کے لائق ھے ۔ یہ وقت بھی گزر جائے گا انشاءاللہ بس احساس کرنے کی بات ھے۔

Prev دنیا ایک اسٹیج
Next خود غرض مختارے

Comments are closed.