راھنمائی فرمائیں

راھنمائی فرمائیں

تحریر محمد اظہر حفیظ

جب بھی سوشل میڈیا پر تصویر دیکھتا ھوں، تو کئی دفعہ رب سے شکوہ کرنے لگ جاتا ھوں میرے سوھنے رب پھرتا تو میں بھی ان ھی جگہوں پر ھوں، کیمرہ بھی یہی میرے پاس ھے، لینز بھی یہی استعمال کرتا ھوں، فوٹوشاپ بھی نیا ھی استعمال کرتا ھوں۔ پر تیری کائنات مجھے ایسے نظر کیوں نہیں آتی۔ بہت تحقیق کی پر جواب نہیں ملا۔ شاید میرے کیمرے میں رنگ کم ھیں، یا نظر ھمیشہ سے ھی کمزور ھے۔ آنکھیں بھی بار ھا چیک کروائیں اور عینک بھی بار بار تبدیل کی پر بات نہ بن سکی۔ زندگی کا ساٹھ فیصد سے زیادہ حصہ فوٹوگرافی کو دے دیا پر تصویر بنانی نہ آئی۔ ابھی کچھ دوستوں نے موبائل فون کیمرہ سے فوٹوگرافی شروع کردی ھے اور کمال کرتے جارھے ھیں ماشاءاللہ سے۔

جو وہ موبائل استعمال کرتے ھیں وہ بھی خرید کر دیکھے پر تصویر نہیں بنتی شاید مجھ میں ھی کچھ مینوفیکچرنگ فالٹ ھے ۔ اب میرے ماڈل کے لوگ یا تو آتے نہیں ھیں یا پھر لا علاج ھوچکے ھیں۔ سورج کی روشنی کو کچھ دوست ایسے کنٹرول کرتے ھیں جیسے کہ سورج کے گرد روشنی کنٹرول کرنے والے دروازے لگے ھوں اور انکا ھاتھ سورج تک جاتا ھے اور وہ اپنی مرضی سے روشنی کو ایڈجسٹ کر لیتے ھیں۔ کہاں روشنی پڑنی چاھیئے اور کہاں نہیں۔ اس کھوج میں فوٹوگرافی تقریبا کرنا چھوڑ ھی دی ھے۔ میں تو ایسا جاہل ھوں کہ پانچ سو واٹ کی نتھو خان کی لائٹ بھی ایڈجسٹ کرنے لگوں تو ھاتھ جل جاتے ھیں، سورج تو ویسے ھی میرے بس سے باھر ھے۔ میرا رنگ تو پہلے ھی بہت کالا ھے ڈرتا ھوں سورج کی ایڈجسٹمنٹ کرتے کرتے کالا سیاہ نہ ھوجائے۔

شاید ڈر کی وجہ سے مناسب تصویریں نہیں بن پاتیں۔

مجھے تو آج تک وہ شاندار بادل، صحرا، دریا، کھیت، سمندر، پہاڑ، بندے نظر ھی نہیں آئے جو ھمارے سب دوستوں کو نظر آرھے ھوتے ھیں۔ کمال فن یہ ھے کہ شدید دھند میں بنی تصاویر میں بھی سورج غروب ھوتا نظر آرھا ھوتا ھے۔ یہ سورج بھی مجھے اکثر دکھائی نہیں دیتا۔ اب میں صرف تصویریں دیکھتا ھوں اور انکو سمجھنے کی کوشش کرتا ھوں۔

پر سمجھ کچھ نہیں آتا۔

کئی دفعہ تو ایسے لگتا ھے جیسے میرے کیمرے کچھ چھوٹا فریم بناتے ھیں جس میں کم منظر نظر آتا ھے۔ کئی لینز بدل کر دیکھے لیکن میرے منظر مکمل نہیں ھوتے۔ ایک دوست انٹرویو میں بتا رھے تھے کہ تصویر کیمرہ یا فوٹوگرافر نہیں بناتا بلکہ اس کا خیال تصویر بناتا ھے۔

اس وقت سے طرح طرح کے خیال ذھن میں آرھے ھیں۔ زیادہ تر خیالات گندے تھے اور اچھے خیال کم ھی تھے۔ تو سمجھ آیا اس وجہ سے تصویریں اچھی نہیں بنتیں۔ اب گوگل پر سرچ شروع کی ھے کہ عمدہ خیالات کس طرح ذھن میں لائے جائیں امید واثق ھے کہ گوگل صاحب اس سلسلے میں میری مدد فرمائیں گے۔ یہ لو جی پہلا جواب آگیا” پہلے تو آپ نے گھبرانا نہیں ھے” بھائی گوگل صاحب یہ فوٹوگرافی پر آرٹیکل ھے اس کو سیاسی ھرگز مت بنائیں میری مدد کریں۔ اب گوگل بھی چپ ھے۔ شاید سوال غلط ھے۔

سارے شہروں اور گاوں میں دو چیزیں بہت فروغ پارھی ھیں فوٹوگرافی کلب اور پریس کلب۔

پتہ نہیں کون کس کی نقل کر رھا ھے۔ جوں جوں یہ کلب پروان چڑھتے گئے پریس اور فوٹوگرافی دونوں ھی تنزلی کا شکار ھوتے گئے۔ رھی سہی کسر کرونا صاحب نے نکال دی۔ میری فوٹوگرافی کے تمام جغادریوں سے درخواست ھے۔ میری اس سلسلے میں مدد کریں اور مجھے سکھا دیں کہ یہ سب کیسے ھوتا ھے، کیکر کے درخت کو آم کیسے لگتے ھیں اور صحرا چولستان سے بلوچستان سفر کرکے کیسے جاتا ھے۔ یہ لال کپڑوں والی لڑکی ھر لوکیشن پر مل جاتی ھے یا ساتھ لیجانی پڑتی ھے۔پنجاب کے گاوں میں صاف ستھرا آسمان ناران سے کیسے پہنچتا ھے۔ نیزہ بازی میں گھوڑے آسمان تک مٹی کیسے اڑاتے ھیں۔ یہ لکڑ کی لکیروں والے بابے اور مائیاں کہاں پائی جاتی ھیں۔ یہ پرندے اور ان کی ریفلیکشن کہاں نظر آتی ھے۔ یہ پرندے سورج کے آگے کیسے اڑتے ھیں۔ کوئی تو راھنمائی فرمائیں استاد جی۔

Prev پنجاب پولیس
Next شوگر

Comments are closed.