شاندار ماں

شاندار ماں

میری امی ایک شاندار ماں ایک عظیم استاد ایک وفا شعار پردہ دار بیوی اور ایک عاجز انسان تھیں جب سے آنکھ کھولی انکو نمازیں ادا کرتےاپنے اور اباجی کے بہن بھائیو کو سنمبھالتے ھی دیکھا بہت بارعب ہیڈمسٹرس تھیں اپنے سکول کے علاوہ کئی اور سکولوں کی تنخواہ کی ذمہ داری بھی انکی تھی مرد حضرات کو سکول کے اندر آنے کی ھرگز اجازت نہ تھی ھمیں روزانہ نہلا کر سلاتیں تھیں کیو نکہ صبح وقت کم ھوتا تھا اس لیئے رات کو نہلا کر سلا دیتیں اور روزانہ ھم صاف کپڑے پہن کر تینو ں بہن بھائی سکول جاتے ھم اپنے اپنے سکولوں کے صاف ترین بچے تھے ماسٹر صاحب ھماری مثال دیتے ان کو دیکھو ماں نوکری کردی اے پورا سکول سنھبالدی اے پر بچے صاف ستھرے تہاڈیاں ویلیاں ماواں تے گندے بچے, امی اکثر ھندوستان سے پاکستان کے وقت کو یاد کرکے رونا شروع ھوجاتیں تھیں کہ بہت خوشحال زندگی تھی لیکن جب پاکستان لاھور پہنچے پاؤں میں نہ جوتی تھی نہ سر پر ڈوپٹہ میں پیدائشی بزرگ تھا کہتا امی جی ھن دیکھو سارے کول سب کچھ اے تو ھنستے ھوئے آنسو صاف کرنے لگ جاتی ھر وقت ھماری کامیابی کی دعاکرتی مجھے نیند بہت آتی تھی اکثر کہتی تھیں اظہر حفیظ تیری وجی سے میری نوکری چھوٹ جائے گی اور ھوا بھی ایسے جب ھم راولپنڈی آئے تو امی جی کو پچیس سال سروس پر ریٹائرمنٹ لینا پڑی امی سکول سے آکر ھمیں ساتھ سلاتی تھیں جب امی سو جاتیں تو میں اور ناصر چچا زاد بھائی اٹھ کر کبھی کھالے پر نہانے چلے جاتے اور امی کے اٹھنے سے پہلے واپس آجاتے لیکن جب امی اٹھ کر ھماری لال آنکھیں دیکھتی تو الٹے ہاتھ سے ھمیں مارتیں کھالے تے نہان کیوں گئے سی اور یا ھم دونوں تیز دھوپ میں پتنگ اڑاتے اور امی ھمارے گرم سر دیکھ کر پھر ھماری دھلائی کرتی کئی دفعہ رونے لگ جاتی کی کراں تہاڈا دوناں دا کسی نہ کسی سے لڑائی ھم دونوں کی عادت تھی روز ھی شکایت آتی ایک دن پھوپھو زاد بھائی میاں عبدالقیوم جو گاؤں کے نمبردار بھی تھے نے ھم دونوں کو سمجھایا یار ھن تسی وڈے ھو گئے او چھوٹی موٹی لڑائی نہ کریا کرو کوئی سر پھاڑو کوئی بازو توڑو بس جناب ھم نے بھی سبق یاد کر لیا اور کام کردیا ھمارے گاؤں میں عیسائی فیملی ایک ھی تھی جس,کو گاؤں والے دوسرے گاؤں سے لائے تھے صفائی وغیرہ کے لیئے انکا بیٹا ماکھا ھمارے ساتھ پیٹھو گرم کھیل رھا تھا اس کے منہ سے گالی کیا نکلی ناصر بھائی نے ایک اینٹ اٹھائی اور ماکھے کو,کرا دی ماکھے کا سر تین جگہ سے پھٹ گیا شائد اینٹ سوئنگ زیادہ ھو گئی امی جیسے ھی سکول سے آئیں ماکھے کی ماں ماکھے کو لے کے آگئی آپا جی اے ویکھو تہاڈے منڈیاں کی کیتا,امی نے اسکو کچھ پیسیے دئیے بہن تو پٹی کراکے لےآ میں پوچھدی آں ناصر تو موقعہ واردات سے فرار تھا اور میں نے پہلے ھی تھپڑ پر اقرار جرم کرلیا اور ھتھیار بھی ڈال دیئے اور امی کو سب بتادیا کہ یہ سب قیوم بھائی نے کہا اور ھم نے کر دیا امی ناصر کو بھول گئیں اور کہا جا قیوم نو بلا کے لیا میں لے آیا جی مامی جی عبدالقیوم صاحب امی ھمیشہ سب کو عزت اور احترام سے بلاتی تھیں اے تسی کی بچیاں نوں خراب کرنا شروع کیتا ھویا قیوم بھائی مامی جی میں تے سمجھایاسی اے غلط لے گئے امی نے انکو ڈا نٹ کر بھیج دیا لیکن ناصر بچ گیا اگلے دن باجی اسما ء قیوم بھائی کی بہن ڈجکوٹ سے آرھی تھیں ٹانگہ میں سوار ساتھ بیٹھی سواری سے ماسی تیری لات نوں کی ھویا,ماسی نمبرداراں دا کتا پے گیا پر ماسی اسی تے کتا کدی رکھیا ھی نہیں ماسی رکھیا تے ھویا ناصر ایٹ مارکے میری لت زخمی کر دیتی باجی امی پاس آئیں اور ھنس ھنس کر ساری بات امی جی کو بتائی امی نے خط لکھ کر,چچا کو فیصل آباد سے بلایا کہ اس کو فیصل آباد لے جاؤ اے دونوں ساتھ رھے تے بدمعاش بن جان گے جوں یہ جوڑی ٹوٹ گئی لیکن تھوڑے ھی دنوں بعد بورڈ کے پانچویں جماعت کے پیپرز شروع ھو گئے اور ناصر بھائی واپس گاؤں تشریف لے آئے اور ھمارا امتحانی مرکز ساتھ والا گاؤں لمبا پنڈ بن گیا ھم دونوں بھائی اور دوست روزانہ ساتھ والے گاؤں پیپر دینے جاتے اور روز ھمیں اس گاؤں کا لڑکا کبھی آواز دیتا اور کبھی گالی ناصر بھائی کہتا پت تو جاندا نئی سانوں تینوں تیرے پنڈ وچ سبق دیاں گے اور آگیا آخری پرچہ پرچہ دے کرباھر نکلے تو بھائی نے اپنا امتحانی گتہ فٹہ پین پینسل میرے تھیلے میں ڈالی اور ڈالر کی بڑی سیاسی کی دوات اپنے تھیلے میں ڈال کر آخری سرے پر گرہ لگائی اور مجھے تاریخی جملہ کہا ویرے اگر آج او منڈا نظر آیا تے میں جو تینو ں کہواں تو او ھی کرنا اے بھائی سے کبھی اختلاف رائے ھوا ھی نہیں سب اچھا کی آواز تھی ھم چل پڑے گاؤں کی طرف اور توڑے فاصلے پر وہ ھمارا ھم عمر بدقسمت انسان مل گیا بھائی نے غصے میں اپنا تھیلہ گمانا شروع کر دیا اب دو آوازیں ھوا میں گونجی پہلی بھا ئی کی تھی ویرے نس اور دوسری اس لڑکے کی ھائے میں مر گیا میں نے ڈورتے ھوئے اس کے سر سے ایک خون کا فوّرا دیکھا اور بھائی بھی میرے ساتھ ساتھ بھاگ رھا تھا گاؤں پہنچ کر سانس لیا امید ھے اس نے دوبارہ کسی کو آواز نہ لگائی ھوگی

Prev امی جی 
Next سکول کا سفر

Comments are closed.