شکر پڑیاں

تحریر فوٹوگرافر محمد اظہر حفیظ
پچھلے ھفتے فیصل مسجد جانے کا اتفاق ھوا وھاں ایک ضعیف باریش فوٹوگرافر سے ملاقات ھو ئی جو شکرپڑیاں پر پولو رائیڈ تصاویر بنایا کرتے تھے اور میری اسلام آباد میں پہلی تصویر انہوں نے ھی بنائی تھی میں نے پوچھا اگر میں غلطی پر نہیں ھوں تو آپ سے پہلی ملاقات شکر پڑیاں پر ھو ئی تھی 39 سال پہلے مسکرائے کہنے لگے 22 سال وھاں فوٹوگرافی کی ھے جی پھر کام کم ھو گیا اور میں فیصل مسجد آگیا اور ساتھ ھی وہ سارا زمانہ یاد آگیا, فوٹوگرافی سے تعلق پیدائشی تھا 1979 پہلی دفعہ اسلام آباد آنے کا اتفاق ھوا, میرے خالہ زاد بھائی نواز انکم ٹیکس آفیسر تھے کہنے لگے خالو جی اظہر ھوناں نوں شکر پڑیاں دکھاتے ھیں فورا ذھن میں آیا شکرپارے طرز کی کوئی چیز ھو گی ابا جی راضی ھوگئے اور ھم مریڈ چوک راوالپنڈی نزد تنگ پلی سے ھم روانہ ھوئے ذھن میں عجیب و غریب خیالات تھے غالبا میں چوتھی جماعت کا طالب علم تھا بہت سا سفر کرنے کے بعد ھم شکرپڑیاں کی پارکنگ میں پہنچے گاڑی پارک کی مزیدار بات یہ ھے کہ 39 سال گزرنے کے باوجود وھاں کوئی تبدیلی نہیں آئی وھی پارکنگ وھی سب کچھ شاید کامران لاشاری صاحب کی نگاہ کرم ادھر نہیں گئی
آتے ھیں شکرپڑیاں کی طرف
گھومتی سڑک ,نشانے لگانے والے باو جی نشانہ لگاو جی نشانہ اظہر لا یار نشانہ جی اچھا ایک غبارہ ٹھاہ دوسرا غبارہ ٹھاہ یار بٹن تے نشانہ لگا اچھا پا جی اور بٹن کو نشانے لگانا شروع کر دیئے باو جی اے انڈین فوجی نوں گراو نواز بھائی بیٹے اس کے پاوں پر نشانہ لو پر نشانہ لگے اور گرے نہیں اس کو پیسے دیئے اور آگے چل پڑے بائیں طرف ایک تختی لگی تھی جنرل ایوب خان صاحب کے افتتاح کی اور آگے نیلی ٹائلوں سے مزئین فوارہ میں نے پہلی دفعہ فوارہ دیکھا تھا بہت اچھا لگا, خالو جی جتنے بھی ممالک کے صدر پاکستان آتے ھیں یہاں یادگاری درخت لگاتے ھیں میں درخت دیکھنے اور ان کی تختیاں پڑھنے لگ گیا مجھے پڑھنے اور جاننے کا بہت شوق تھا بچپن سے ھی , ایک طرف پاکستان کا نقشہ بنا ھوا تھا اور نواز بھائی بتا رھے تھے اس نقشے کے مطابق ھم یہاں کھڑے ھیں اور یہ نیلا پانی ھے راول ڈیم کا,سامنے پہاڑ ھیں اور چلتے چلتے ھم ٹیرس پر آگئے ھلکا سبز رنگ ھوا ھوا تھا ٹیرس پر اور سامنے پہاڑ ,خالو جی یہاں سے اسلام آباد کا سب سے خوبصورت نظارہ ھے اور واہ واہ مجھے آج تک نظارہ یاد ھے زرعی ترقیاتی بنک ھی سب سے بلند عمارت تھی باقی اسلام آباد خالی اس ٹیرس سے سیڑھیاں اتر کر نیچے آئے تو برآمدہ طرز کی جگہ تھی خالو جی یہاں زیادہ فلمیں شوٹ ھوتی ھیں,اور میرے ذھن میں گانے گاتے محمد علی صاحب,زیبا صاحبہ,ندیم صاحب اور شبنم صاحبہ آنا شروع ھو گئے,اظہر کی سوچیں پے گیا,ابا جی کی آواز واپس لائی دیواروں پر ناکام عاشقوں کے شعر اور دل پر تیر بنے دیکھے اور واپس چل پڑے , واپسی پر کھانا بھی وھیں سے کھایا,آج 39 سال گزرنے کے بعد سب ویسا ھے پر شکر پڑیاں سنسان اور اداس ھے وھاں کوئی نہیں جاتا وھاں ریسٹورنٹ کو اجازت مل گئی لوگ جاتے ھیں کھانا کھاتے ھیں شکر پڑیاں دیکھے بغیر واپس آجاتے ھیں اور عاشقوں نے بھی اپنے راستے بدل لیے ھیں کوئی دامن کوہ جاتا ھے تو کوئی مونال شکرپڑیاں توجہ کاطالب ھم سب کی,فلم والوں کی, عاشقوں کی اور حکومت وقت کی,سب ویسا ھی ھے وھی راستے,فوارہ,درخت,ناموں کی تختیاں, گندے باتھ روم اور غبارے والے بس اب ان پر نشانے کیلئے انڈین فوجی نہیں ھیں انکی جگہ ماچس کی تیلیوں نے لے لی ھے نشانہ لینے پر جل جاتی ھیں یہ کوئی مثبت تبدیلی نہیں ھے میں ابھی بھی انڈین فوجی کو ھی گرانا چاھتا ھوں دعوت عام ھے اس کو دوبارہ سے آباد کرنے کی, سامنے منظر بدل گیا ھے,یو فون ٹاور,سٹاک ایکسچینج, سینٹورس, سعودی پاک ٹاور,شہید ملت ٹاور,سٹیٹ لائف ٹاور,بلیو ایریا, فیصل مسجد,سپورٹس کمپلکس, چائنہ سنٹر,اور بہت کچھ آپ دیکھنے تو آئیں,آپ کا منتظر شکرپڑیاں

Prev بڑا آدمی
Next گولڑہ ریلوے سٹیشن

Comments are closed.