عید قربان

عید قربان
بچپن میں نماز عید ادا کرنی اور خطبہ سنے اور دعا مانگے بغیر ھی گاؤں کی طرف دوڑ لگا دینی کہہ قربانی کا جانور سب سے پہلے پیپل کے درخت کے نیچے پہنچایا جائے تاکہ سب سے پہلے ھماری باری آجائے اور ایسے ھی ھوتا تھا اور ھم کو تایا زاد بڑے بھائی طاھر بھائی سے داد تحسین بھی ملتی تھی, اور یوں عید قرباں کی یادیں ذھن نشیں ھونا شروع ھوئیں پھر ھم اسلام آباد آگئے اور ھم اسلام آباد سے عید کرنے گاؤں جاتے تھے سب چچا اور تایا بھی گاؤں اکٹھے ھوتے تھے ھمارے دادا سات بھائی تھے اور انکی اولاد اور پوتے پوتیاں بہت رونق ھوتی تھی اور خوشی بھی اپنے انتہاء درجے کو چھوتی تھی دودھ والی سویوں پر دیسی گھی کا مزا آج بھی نہیں بھولتا امی جی, پھر آھستہ آھستہ سب دور ھوتے چلے گئے اور اپنے اپنے شہروں میں عید کرنے لگے اب ھم اسلام آباد عید کرنا شروع ھوگئے پہلی دفعہ جس پروفیشنل قصائی کا بندوبست ابا جی کے کزن چچا میاں مظہر نے کیا وہ قابل تحسین تھا چچا اور ابا جی کی ھنسی نہیں روکتی تھی, سب سے پہلے اس نے ھمارے اور چچا کے بکروں کو ایک ساتھ ذبح کیا اور انکے پائے کاٹ دئیے ابا جی نے پوچھا آپ ان کو لٹکاؤ گے کیسے وہ بولا حاجی صاحب ھم کوئی اناڑی تو نہیں ھیں دیکھتے جائیں اور بکرے کی ٹانگوں کو گرہ لگا کر بکرے کو لٹکا دیا اور دو بکرے ابھی زمین پر ذبح پڑے ھوئے تھے کھال اتار کر اس نے بغدے کی بجائے کلہاڑی نکالی اور گوشت کاٹنا شروع کیا, یہ کیا وہ نشانہ کسی جگہ کا لیتا اور وار کہیں اور ھو جاتا چچا جان قصائی سے جوان تیرا مسئلہ کی اے جی کی ھویا اے یہ کیا کر رہے ھو جی دراصل میری ایک آنکھ مصنوعی ھے کئی دفعہ اندازہ غلط ھو جاتا ھے, اباجی مینوں تے لگدا اے تینوں جن چمڑے ھوئے نے, چچا ابا جی سے اس سے پہلے یہ سارا گوشت ضائع کردے اسکو پیسے دے کر فارغ کریں, قصائی دیکھیں جی میں معذور ھوں اناڑی نہیں ,اس کو پیسے دے کر فارغ کیا اور چچا نے باقی کا خود کیا,
اگلے سال سے ایک نیا کام شروع کر دیا جس سے گوشت لیتے تھے اسی سے ذبح کرانا بھی شروع کر دیا, اور زندگی آسان ھوگئ, وہ گھر آتا ذبح کرتا تو بیس سے تیس منٹ میں گوشت بنا یہ جا وہ جا, لیکن چند سال میں ھی سلیم قصائی سو سے دو سو لوگوں کو بکنگ دینے لگا اور حکم تھا میاں صاحب دوکان پر بکرے لے آئیں, اورھم نماز ادا کرکے خطبہ سن دعا مانگ کر لوگوں سے ملکر جب وھاں پہنچتے تو بہت دیر ھو چکی ھوتی تھی اور شام تک باری آتی, ایک دن ھمارے دوست عباس بھائی مرحوم گھر عید ملنے آئے اباجی نے بتایا دونوں صاحب تو صبح سے قصائی پاس ھیں وہ بھی وہیں آگئے ھم ابھی بھی انتظار میں تھے عباس بھائی نے بکرے کھولے اور ھمارے گھر کی طرف چل پڑے میرے بڑے بھائی طارق نے عباس بھائی سے پوچھا خیریت تو عباس بھائی بول خود کرنا سنت ھے, گھر جا کر خود کرتے ھیں, اور یوں ھم خود قربانی کرنے لگے ھر سال عباس بھائی آجاتے اور ھم ایک گھنٹے میں فارغ ھوجاتے تیسرے سال عباس بھائی کا انتقال ہوگیا لیکن ھم نے انکی روایت کو جاری رکھا, دیسی بکروں کا انتخاب بھی ایک دلچسپ مرحلہ ھوتا تھا میں تمام جانوروں سے اتنا ھی ڈرتا ھوں جتنا وہ مجھ سے ڈرتے ھیں, اباجی کے ڈرائیور ندیم بھائی ساتھ جاتے بکرا منڈی وہ جس بکرے پر ھاتھ رکھتے ھم خرید لیتے مجھے اب یہ سائینس سمجھ نہ آتی کہہ ندیم بھائی کا بکروں سے کیا تعلق اگلی عید میں نے پوچھ ھی لیا اباجی یہ ندیم بھائی ڈرائیور ھیں انکو کیا پتہ بکروں کا اباجی مسکرائے یار او خاندانی قصائی اے ڈرائیور تو میں نے بھرتی کیا ھے, ابا جی کی ریٹائرمنٹ کے بعد طارق بھائی اور عاطف بھائی یہ فریضہ انجام دینے لگے اور جب ابا جی بیمار ھوئے تو ھم نے انکو ساتھ بکرا منڈی لے جانا چھوڑ دیا انکو سانس کا بہت مسلئہ ھو جاتا تھا, اور عاطف بھائی بکرے پر تکبیر پڑھتے اور کھال اتارتے باقی کٹائی کی ذمہ داری میری تھی ابا جی ساتھ ھدایات دیتے جاتے اور ھم کام کرتے جاتے ساتھ وہ شاباش بھی دیتے واہ جی واہ اے بڑی ودھیا بوٹی بنائی اے پر ھم دونوں بھائی ھر عید پر عباس بھائی کو ضرور یاد کرتے ھیں اور انکے لیئے دعا کرتے ھیں, پچھلی عید پر ابا جی کی طبعیت زیادہ خراب ھوئی اور عید کے کچھ دن بعد وہ ھم سے بچھڑ گئے, اور یہ پہلی عید قربان تھی جو انکے بغیر تھی میں رات کو سوچ رھا تھا یار صبح کیسے عید کا دن گزرے گا کوئی گیارہ بجکر چالیس منٹ پر لطیف بٹ بھائی کا فون آگیا میں ڈر گیا اللہ خیر کرے ذھن میں کئی وسوسے بھی آئے فون آٹینڈ کیا اسلاموعلیکم بھائی جان خیریت ھے انکا جواب تھا نہیں یار وہ عبدلرزاق مرزا صاحب کی بیوی انتقال کر گئی ھیں بہت انہونی خبر تھی باجی بشری بہت اچھی خاتون تھیں بڑی بہنوں کی طرح بھابھی تھیں اور میری کوکنگ میں استاد بھی تھیں گھروں میں آنا جانا تھا, میں فوراً گھر سے نکل کر انکے گھر کی طرف چل نکلا گاڑی چلا رھا تھا اور انکی آوازیں میرے کانوں میں آرھی تھیں ,پائین علیزے میڑک کے پرچوں سے فارغ ھے میرے پاس چھوڑ جایاکریں کوکنگ سکھادوں گی, پائین کیک کا سپنج بہتر کرنے کے لیئے انڈے کی زردیاں زیادہ ڈالیں, پائین پیزا تسی اوون وچ بنانا اے یا دیگچے وچ دوناں دا فرق ھوندا اے, پائین کتھے ھو باجی خیریت ھاں او عالیہ نے دھی بڑے بنائے نے پائین لطیف وی آرھے نے تے تسی وی آجاؤ, یہ سب سوچتا سوچتا میں انکے گھر پہنچ گیا, عبدالرزاق مرزا صاحب کے گلے لگ کر میں اپنا رونا نہیں روک سکا, حسن انکا بیٹا اور عالیہ بیٹی اور علی بڑا بیٹا جو پڑھنے آسڑیلیا گیا ھوا ھے سب کی باتیں یادیں ذھن میں گھوم رھیں تھیں باجی کا فون آتا پائین رزاق صاحب نوں سمجھاؤ, پائین علی تہاڈی مندا اے, پائین عالیہ تہاڈی گل نہیں ٹالدی, باجی اسطرح اپنی اپنایت اور شفقت کا اظہار کرتی رھتیں, پائین تہاڈے اننے جانن والے چینل نے میرا وی کوکنگ شو کروادیو اور میں یقین سے کہہ سکتا ھوں باجی ان سب سے بڑی کک تھیں اور میں نے ان سے روھی ٹی وی پر کچھ شو کروائے بھی, اور باجی وفات پاچکی تھیں, اور مجھ سے باتیں کئے جا رہی تھیں, علی سے رابطہ نہیں ھو پارھا تھا عالیہ آگئی تھی, طے ھوا صبح عید کی نماز کے ساتھ انکا جنازہ ادا کر دیا جائے, میں اور میرے دوست صالح محمد رات دو بجے قبرستان پہنچے اور انکے لیئے قبر کی جگہ مختص کروائی اور انہوں نے بتایا کہہ آپ جنازہ کا وقت ظہر کے بعد کا رکھیں پہلے اور بھی جنازے ھیں ایسا ھی کیا گیا کفن اور دوسری ضروریات کی اشیاء خریدیں اور گورکن جو پہلے سے وھاں اور قبریں کھود رہے تھے رات کے دو بجے انکے پاس گئے اور جو پرچی ھمیں قبرستان انتظامیہ نے دی تھی انکے حوالے کی, رات دوبجے قبرستان میں میری یہ پہلی دفعہ آمد تھی لیکن باجی بشری کے لیے کچھ بھی کیا جاسکتا تھا, نہ ڈر لگا اور نہ خوف آیا, گھر آئے اور غسل کا سامان انکی ایک دوست کے حوالے کیا عالیہ اور اس باجی نے غسل کے بعد تجویز کیا انکو سرد خانے رکھا جائے صالح بھائی اور لطیف بھائی پہلے ھی انتظام کرچکے تھے صبح 6 بجے انکو پولی کلینک ہسپتال میں سرد خانے میں رکھوا کر عیدی سنٹر انکی طرف سے قربانی کے پیسے جمع کرواچکے تھے مرزا صاحب ,حسن اور لطیف بھائی کو چھوڑ کر سات بجے نماز عید ادا کی اور طارق بھائی سے عید ملکر بغیر کسی اور سے ملے میں گھر واپس آکر سو گیا گیارہ بجے واصف بھائی نے بکرا ذبح کیا اور میں گوشت بنا رھا تھا اور جنازے کا وقت قریب تھا عمران افضل آگئے میں نے گوشت انکے اور طارق بھائی کے حوالے کیا باقی آپ کرلیں اور میت گاڑی آچکی تھی باجی کو اللہ کے حوالے کیا امی جان اور ابو جان کی قبر پر حاضری دی دعا کی اور شام چار بجے گھر آگیا سارا دن اوررات باجی ذھن میں رھیں سوچتا تھا عید کا دن کیسے گزرے گا شکریہ باجی آپکی وجہ سے امی اور ابو کی طرف دھیان ھی نہیں گیا, آپ ایک اچھی استاد اور بہن تھیں اللہ آپکے لیئے قبر کے تمام امتحان آسان کریں آمین

Prev ھندوستان
Next احتیاط

Comments are closed.