مارچ دوھزار بیس

مارچ دوھزار بیس
تحریر محمد اظہر حفیظ

آٹھ مارچ خواتین کا عالمی دن بہت جوش و خروش سے منایا گیا۔ اور خواتین کو تمام منہ مانگے اور لکھے ھوئے حقوق مل گئے۔ بہت خوشی کی بات ھے،
اللہ ان کیلئے مزید آسانیاں کریں آمین۔ میرے گھر میں بھی آٹھ خواتین رھتی ھیں شام کو نویں بھی تشریف لے آئیں۔ میری بھابھی انکی دو بیٹیاں، میری بیوی اور اسکی چار بیٹیاں اور شام کو میری بہن بھی سمندری سے تشریف لائیں، میں اور میرا بیچارا بھائی ان نو خواتین میں اکیلے اکیلے محسوس کر رھے تھے ڈر بھی رھے تھے کہ پتہ نہیں آج کیا ھوگا ایک طرف نو خواتین اور دوسری طرف ھم دو بیچارے آدمی۔ میں نے ڈرتے ڈرتے بیگم صاحبہ سے پوچھا آپ لوگ مارچ پر جائیں گی تو کیا کھانا بنا کر رکھیں، مارچ کا مہینہ تو سارا ھم گھر پر ھی ھیں جب بچوں کا رزلٹ آئے گا تو اپریل میں سیر کو جائیں گے۔ میں حیران رہ گیا نو خواتین میں سے کسی کو خبر نہیں تھی کہ آج عورتیں مارچ کر رھی ھیں۔ اور عورتوں کا عالمی دن ھے۔ اچھا آج گفٹ کیا لیں گی دفع کریں گفٹ کو اپنے لئے چار ٹراؤزر لیتے آئیے گا۔ پہلے والوں کے رنگ خراب ھوگئے ھیں۔ یار آج عورتیں آزادی مانگ رھیں ھیں تمھیں پتہ ھی نہیں۔ میں تو آپ کی پابند ھی اچھی ھوں۔ جی بہتر۔
لگتا ھے صبح سے آپ نے سوشل میڈیا نہیں دیکھا، چار بیٹیاں ھوں تین کے پیپر ھورھے ھوں تو سوشل میڈیا کون دیکھے۔ اوپر سے باجی بھی آرھی ھیں کھیر بنانی ھے کھانا بنانا ھے۔ باھر نعرے لگ رھے ھیں میرا جسم میری مرضی۔ اظہر آپ کا دماغ ٹھیک ھے یہ کیسا بکواس نعرہ لگا رھے ھیں۔ بیگم صاحبہ میں نہیں یہ عورتیں ھیں جو نعرہ لگا رھی ھیں کیسے ممکن ھے ۔ ایک عورت یہ بات کرے۔ عورت حیا کا پیکر ھوتی ھے ضرور کسی کی چال ھوگی۔ اچھا صبح کا الارم لگا دیں سب بچوں نے سکول، کالج جانا ھے جی بہتر۔
یہ کیسا عورتوں کا عالمی دن تھا۔ جو سب عورتوں کو پتہ ھی نہیں تھا۔ ان کی سب دلی خواہشات آج پوری ھونے جارھی ھیں۔ ایک باجی نے کارڈ اٹھایا ھوا تھا کہ مرد و عورت کی مزدوری برابر ھو۔ جی ضرور ھونی چاھیئے۔
ویسے میرے ذھن میں ایک خیال آتا ھے کیا ایسا ممکن ھے۔
ھماری فوٹوگرافی فیلڈ ھے آدمی فوٹوگرافر پندرہ سو سے پانچ ھزار تک ایک شفٹ کا چارج کرتا ھے آج سے خواتین فوٹوگرافرز کے ریٹ بھی یہی مقرر کر دیئے جائیں۔ کام اور تجربہ کی بنیاد پر اور کوئی حکم۔ حقوق اور اختیارات بھی برابر کر دیئے جائیں، باتھ روم پہلے ھی الگ الگ ھوتے ھیں۔ انکو الگ ھی رھنے دیتے ھیں، چھلی بیچنے والی ریڑھیاں آدھی آدھی تعداد میں کر دیتے ھیں، موچی کی دوکانیں بھی آدھی آدھی کر دیتے ھیں، قصائی کی دوکانیں بھی آدھی آدھی کر دیتے ھیں، بینک کے ملازم اور گارڈز بھی آدھے آدھے کر دیتے ھیں، سب نوکریاں اور ذمہ داریاں آدھی آدھی کر دیتے ھیں، گٹر کھولنے کا کام بھی آدھا آدھا کر لیتے ھیں، جنازہ مرد ھی اٹھا لیں گے، اگر اعتراض ھے تو آدھا راستہ آپ اٹھا لیں آدھا راستہ ھم اٹھا لیں گے، عورتوں کی قبریں عورتیں کھودیں، مردوں کی مرد،
پھر خیال آتا ھے زندگی کافی اچھی گزر رھی ھے گزرنے دو میرے گھر کی عورتیں تو وہ چاھتی ھی نہیں ھیں جو یہ باجیاں نعرے لگا رھی ھیں۔ چلو اگلے سال تک اس بحث کو مؤخر کر دیتے ھیں ھنسی خوشی زندگی گزارتے ھیں۔ شکر ھے مردوں کا کوئی دن نہیں ھوتا ورنہ بڑی بحثیں کرنا پڑتیں۔ دن منانے والی باجیاں بھی خیر خیریت سے گھر پہنچ گئی ھوں۔ ان کے مرد کتنے اچھے ھیں جنہوں نے انکی غیر موجودگی میں بچوں کو سنبھالا کھانا بنایا ان کا انتظار کیا اور عورتوں کے عالمی دن کی مبارک باد بھی دی۔ ساتھ ساتھ میچ بھی دیکھتے رھے، ایک بات اور ھے اگر عورتیں گھر اور سٹیڈیم سے باھر ھوں تو لاھور قلندرز کی پرفارمنس بہتر ھوجاتی ھے ، آج عورتیں بھی جیت گئیں اور لاھور قلندر بھی۔
اللہ سب کی عزت اور شرم و حیا محفوظ رکھیں۔ آمین

Prev ماں کے بیٹے
Next فوٹوگرافی اور ویڈیو گرافی

Comments are closed.