ملک ریاض

ملک ریاض
تحریر محمد اظہر حفیظ

مجھے نہیں پتہ ملک ریاض کیسے اتنا بڑا اور امیر انسان بنا۔ اس کے غربت کے دن کیسے تھے جب وہ سفیدی کے ٹھیکے لیتا تھا اور کب اس کو سیاہ کو سفید کرنا آگیا۔ یہ سب کیسے ھوا ایک سکوٹر سوار یہاں تک کیسے پہنچا کہ اب زیادہ تر لوگوں کے پاس اس کی ملکیتی بلٹ پروف گاڑیاں ھوتی ھیں۔ جتنے منہ ھیں اتنی باتیں۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو اس شخص پر بہت سے شعبوں کو پی ایچ ڈی کروانی چاھیئے، آرکیٹیکچر، لینڈ سکیپنگ، مینجمنٹ، سیکورٹی، آرٹس، سٹی سکیپنگ، ٹیکنالوجی، فلاح، غریب پروری، میڈیکل، فائر بریگیڈ، ارتھ کیوئک پروفنگ، مونومنٹ، اور بہت سے شعبے ۔ سب کو دیکھنا چاھیئے یہ شخص کون ھے اور یہ سب کیسے پلان کرتا ھے، جہاں چاھتا ھے شہر آباد کرتا ھے اپنے اس کے سٹینڈرڈز ھیں ان پر کمپرومائز نہیں کرتا، سب سٹینڈرڈ کام یہ اپنی آبادیوں میں نہیں کرنے دیتا۔ کوالٹی پر کمپرومائز نہیں کرتا، پانی، بجلی، گیس سب کو کیسے پہنچاتا ھے، راتوں رات کیسے شہر آباد کرتا ھے شہروں کی پلاننگ کیسے کرتا ھے، ھسپتال کیسے بناتا ھے، پارک کیسے بناتا ھے۔فری لنگر خانے کیسے آباد کرتا ھے۔ میڈیا اس کے حق میں کیسے ھے، کوئی اس کے خلاف خبر کیوں نہیں لگوا سکتا، یہ سب نیٹ ورکس کو کیسے کنٹرول کرتا ھے۔
سب یونیورسٹیوں کو چاھیئے مختلف شعبوں میں ملک ریاض صاحب کے لیکچرز کا بندوبست کریں یہ شخص کیسے سوچتا ھے۔ کیسے دیکھتا ھے۔ اس کی سوچ اتنی بڑی کیسے ھوئی۔ وہ اپنے علاوہ سب کا کیسے سوچتا ھے وہ معاف کیسے کرتا ھے۔ کیسے شہر سوچتا اور آباد کرتا ھے۔ لوگ کیوں اتنا اندھا اعتماد کرتے ھیں سب پروپیگنڈا کے باوجود اس کے پروجیکٹ آنے سے پہلے کیسے فروخت ھوجاتے ھیں۔ وہ زمینوں کے قبضے کیسے لیتا ھے، سب کو راضی کیسے رکھتا ھے، اس کی فائلیں کیسے دوڑتی ھیں، اس نے اتنی شاندار اور کامیاب ٹیمیں کیسے بنائی ھیں، وہ پل کیسے بناتا ھے ھائی رائز بلڈنگز کیسے سوچتا اور بناتا ھے۔ گورنمنٹ کو چاھیئے فوری طور پر ملک ریاض صاحب کی زندگی کے طور طریقوں کو عکس بند کروائے اور نہیں تو بحریہ ٹاون مینجمنٹ کو اس پر کام کرنا چاھیئے، یہ پاکستان کی ایک ایسی کامیاب سٹوری ھے جو کئی لوگوں کیلئے راھنما اور مددگار ثابت ھوگی ۔ ملک کے کتنے شعبوں کے لاکھوں لوگ ان کے ساتھ کام کے سلسلے میں منسلک ھیں۔ اور کتنے ان کے پروجیکٹس میں رھائش پذیر ھیں ۔ زندگی کی مہلت کا کیا پتہ اس لئے مثبت تحقیقات ھونی چاھیئں، اور اگر ان پر اعتراضات ھیں تو انکا ادارہ ادھر پاکستان میں ھی موجود ھے،ان سے جوابات طلب کئے جاسکتے ھیں۔ اور حساب کتاب کیا جاسکتا ھے۔ میری چند دفعہ خوشنود علی خان صاحب کے ساتھ ان سے ملاقات ھوئی ھے۔ آخری ملاقات 1998 میں چکلالہ سکیم میں واقع دفتر میں ھوئی۔ اس وقت مجھےاندازہ نہیں تھا کہ یہ انسان اتنا طلسماتی شخصیت کا مالک ھے صرف تین دھائیوں کی کہانی ھے اور بہت سے شعبوں میں بہت سی کامیابیاں ھیں۔ سب پر کام ھونا چاھیئے، کم از کم سب شہروں کی مینجمنٹ کو ان کی ٹیم سے ٹریننگ کروانی چاھیئے، کیسے سب چیزوں کی مینجمنٹ ھوتی ھے۔ لوڈشیڈنگ کیوں نہیں ھوتی، گیس کا پریشر کم کیوں نہیں ھوتا، مساجد اتنی خوبصورت کیسے بناتے ھو، تعلیمی ادارے کیسے بناتے ھو۔کتنے لوگ ھیں جو بحریہ ٹاون کی نقل کرکے ھاوسنگ کے پراجیکٹس شروع کرتے ھیں اور عملی جامہ پہناتے ھیں، اگر آپکا خیال ھے اتنے بڑے پراجیکٹس کرنے پر انکو سزا ھونی چاھیئے تو فورا عمل درآمد کیجئے اور سوچئے اس کے علاوہ کاروبار کونسا ھے جو کامیابی سے چل رھا ھے۔ کتنے لوگ بحریہ ٹاون سے کسی نہ کسی طرح منسلک ھیں بے شک وہ بحریہ دسترخان ھی کیوں نہ ھو۔ کوئی تو ھو جو بتائے اس شخص کے مظالم زیادہ ھیں یا پھر رحمدلی، مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں لیکن اس کو ڈاکیومینٹ کر لیجئے اس سے پہلے کہ دیر ھوجائے۔

Prev جی اچھا جی
Next شکریہ

Comments are closed.