میرے ابا جی

میرے ابا جی
تحریر محمد اظہر حفیظ

امین اقبال ایک ظالم قسم کا شدید محبت کرنے والا دوست ھے۔ ایک دن کہنے لگا یار تجھے نا رلانا آگیا ھے اب ضروری تو نہیں کہ ھر تحریر میں پڑھنے والوں کو رلائے۔ میں خاموش رھا کوئی جواب نہیں دیا کیونکہ اس کے تبصرے بے لاگ اور مخلص ھوتے ھیں۔ میں کہنا تو چاہ رھا تھا کہ میرے یار اصل میں مجھے رونا آگیا ھے۔
ساری زندگی قہقہے لگاتے ، موج کرتے، سیر سپاٹے، فوٹوگرافی کرتے، طنز کرتے گزار دی۔ سچی بات ھے دکھ کی سمجھ ھی نہیں تھی راوی ھر طرف سکھ چین ھی لکھتا تھا۔ پھر سال2011 آیا اور امی جی اللہ کو پیاری ھوگئیں۔ ابا جی بہت شاندار انسان تھے۔ انھوں نے ھمیں محسوس ھی نہیں ھونے دیا کہ امی جی اب ھمارے ساتھ نہیں ھیں ۔ وہ بیک وقت امی اور ابو بن گئے تھے ۔ وقت گزرتا رھا اور سال 2015 آگیا ۔ 11 اکتوبر 2015 کو پتہ چلا کہ ھماری امی اور ابو دونوں فوت ھوگئے۔ پھر پتہ نہیں کیا تبدیلی آئی بغیر وجہ کے ھی رونا آجاتا ھے۔ کئی دفعہ نہیں بھی رونا چاھتا پر بدتمیز آنکھیں بہنا شروع کر دیتی ھیں۔ سچی بات ھے۔ امین اقبال بھائی کے کہنے پر ایسی تحریریں لکھنا چھوڑ دیں جن سے کسی کو رونا آئے پر رونا نہیں چھوڑا۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ کوئی ایسی تحریر لکھی ھو اور ھنسی خوشی لکھی ھو۔ کسی کو بتانا بہت مشکل ھے کہ دھندلی آنکھوں سے لکھنا اور پڑھنا کتنا مشکل ھے اس کا اندازہ آپ املاء کی غلطیوں سے بھی لگا سکتے ھیں۔
آج ابا جی کو اللہ پاس گئے چھ سال ھوگئے ھیں۔ اور میں انکو یاد کر رھا تھا۔ اگر ابا جی آج زندہ ھوتے تو وہ ضرور ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کے جنازے میں شریک ھوتے۔
کیونکہ وہ ھر محب وطن پاکستانی سے بہت محبت کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب سے ان کی عقیدت دیدنی تھی۔ ابا جی کو ھندوستان سے شدید نفرت تھی۔ پاکستان اور ھندوستان کا میچ ھاکی کا ھو یا کرکٹ کا اباجی کو میچ دیکھتے ڈسٹرب کرنا موت کو دعوت دینا ھوتا تھا۔ دو دفعہ مجھ پر غداری کا مقدمہ بھی ابا جی نے قائم کیا ۔ میں نے صرف یہ پوچھا تھا۔ کہ اباجی جی میچ کس کس کا ھورھا ھے۔ انھوں نے اپنا جوتا اٹھایا اور مجھے مار دیا ساتھ آواز آئی دفع ھوجا غدارا۔
ساڈی جان تے بنی ھوئی اے تے اے پوچھدے نے میچ کس دا اے۔ اکثر انجیسیڈ کی گولی زبان کے نیچے رکھ کر میچ دیکھتے تھے۔ اس دن تمام کھانے اور نمازیں قضا ھی ادا ھوتی تھیں۔ ھم کوشش کرتے تھے کہ ساتھ کوئی بچہ بٹھا دیں تاکہ وہ ابا جی پر دھیان رکھ سکے۔ کہیں جذبات میں ھارٹ اٹیک ھی نہ ھوجائے۔ ایک ایک بال اور شارٹ اپنی نگرانی میں لگاتے تھے جیسے خود کھیل رھے ھوں۔ اب ایسے بندے کی حالت سوچیں جب انڈیا نے ایٹمی دھماکے کئے کیا ھوگی اور جب جواب میں پاکستان نے امن کی خاطر دھماکے کئے تو ابا جی کی محبت ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب سے کس لیول پر ھوگی۔ جب ڈاکٹر صاحب سے زبردستی بیان دلوایا گیا تو اس پر وہ بہت نالاں تھے۔ کہ حکومت کو یہ زیادتی نہیں کرنی چاھیئے تھی۔ میں اپنے اباجی کے فوت ھونے کا آج تک اپنے آپ سے افسوس نہیں کرسکا کہ وہ میرے اپنے تھے کس سے افسوس کروں۔ اب اسی حالت سے دوبارہ گزر رھا ھوں کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کا افسوس کس سے کروں وہ بھی تو میرے اپنے تھے۔
بہت مشکل ھے کسی اپنے کا اپنے آپ سے افسوس کرنا۔ عجیب صورتحال ھے سارے پاکستانی ڈاکٹر صاحب کے لواحقین ھیں کون کس سے افسوس کرے۔ سارا سوشل میڈیا بھرا پڑا تھا جیسے سب نے اپنے گھر میں فوتگی کی اطلاع دی ھو۔ اللہ تعالٰی قوم کے اس عظیم محسن کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے آمین ۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ساتھ میرے والدین اور سب کے والدین جو وفات پا گئے ھیں۔ کیلئے بھی دعائے مغفرت کی درخواست ھے۔ اللہ تعالٰی ان سب کے اگلے جہاں کے امتحانات آسان فرمائیں آمین۔ امین اقبال اس سے زیادہ صبر والی تحریر لکھنا مشکل ھے بھائی۔

Prev خاموش
Next ادھورے خواب

Comments are closed.