کم تر

کم تر
تحریر محمد اظہر حفیظ

کچھ لوگ دوسروں کو کم تر سمجھتے ھیں ۔ وہ بہن بھائی بھی ھوسکتے ھیں،رشتہ دار بھی اور دوست احباب بھی۔ 
مجھے تو آج تک کوئی بھی انسان چھوٹا یا کم تر نظر ھی نہیں آیا۔ سب میرے سے بہتر ھی ھیں۔ لفظ سنا تھا اچھوت، شودر شاید انڈیا میں ھوتے ھونگے۔ یہاں تو کبھی دیکھے نہیں۔ میں ایک عجیب انسان ھوں اور سب کو انسان سمجھتا ھوں۔ پر ھمارے اردگرد رھنے والے شاید ھماری شکلوں اور بیماریوں کی وجہ سے ھمیں اچھوت سمجھتے ھیں۔ اللہ انکا بھلا کرے امین۔ ان کو صحت اور تندرستی دے امین۔ ھماری بھی زندگی گزر جائے گی۔ سنا تھا اندراگاندھی لوگوں سے دستانے پہن کر ھاتھ ملاتی تھیں اور پھر بھی بعد میں ڈیٹول سے ھاتھ دھوتیں تھی۔ میرا خیال ھے اگر آپ اتنے اعلی مقام اور نسل رکھتے ھیں تو ھم سے دور ھی رھیئے کہاں ھم ملنگ، فقیر، درویش صفت جانور اور آپ اشرف المخلوقات۔
مجھے کچھ لوگوں کے رویے سونے اور جاگنے نہیں دیتے اکثر دوست پوچھتے ھیں سوتے کب ھو کیا بتاوں۔ ایک عجیب وسوسے میں ھوں ۔ میں سب پر جان نثار کرنے کو تیار رھتا ھوں عجیب الخلقت جانور ھوں ۔ وہ ملنا بھی نہیں چاھتے۔ اور ایک میں ھوں جو آوازیں دے دے کر ملتا ھوں۔ بہانے بہانے سے ملتا ھوں۔ میری جان میں اداس ھوں ۔ اور وہ پوچھتے ھیں اب طبعیت کیسی ھے کیا بتاوں کیسی ھے ۔ خود تو کچھ بتاتے نہیں ھو طبعیت کیسی ھے تو پھر میں کیسے بتاوں۔ میں بھی دل کرتا ھے ھجرت کر جاوں کسی ایسی جگہ چلا جاوں جہاں سب سے رابطہ ختم ھوجائے نہ مجھے اور میرے بیوی بچوں کو اچھا سمجھے اور نہ ھی برا۔ بس ھماری اپنی دنیا ھو۔ اور کوئی نہ ھو اب مجھے محبت اور نفرت دونوں خالص نہیں لگتیں۔ سب ملاوٹ ھے اور ملاوٹ مجھے پسند نہیں۔ 
مجھ سے جنہوں نے محبت کی یا نفرت کی میں نے دونوں سے شفقت کی کہ جس کے پاس جو ھوتا ھے وہ وھی کرسکتا ھے ۔ پر یہ بات میرے بیوی بچوں کو سمجھ نہیں آتی اور وہ مجھے اکثر سمجھانے بیٹھ جاتے ھیں کبھی کبھی مجھے محسوس ھوتا ھے کہ میں ان کیلئے کچھ کچھ نہیں کر سکا شاید مجھے ھی دنیا کے رویے سمجھ نہیں آتے۔ اور مجھے ان کی سن لینی چاھیئے۔ اور ان سب سے پوچھ لینا چاھیئے جو ھمیں اچھوت یا شودر سمجھتے ھیں۔ جن کی کوئی مجھے خبر نہیں دینا چاھتا انکی میں خبر لینا بھی نہیں چاھتا۔ سب اپنی اپنی موج میں رھیں اور ھمیں ھمارے حال پر چھوڑ دیں۔ 
بے شک میرے لیئے میرا اللہ ھی کافی ھے۔ اور ھمیں کسی اور کی کوئی ضرورت بھی نہیں ھے۔ 
مجھے اب کسی سے ڈر نہیں لگتا ماسوائے حالت زمانہ سے سمجھ نہیں آرھی ھم کس طرف جارھے ھیں اور کیا کرتے جارھے ھیں ایسی نمازوں کی کیا گنتی جب ھر وقت دل آزاری ھی کرنی ھو ۔ ھر بات ھی تلخ ھو۔ کوئی آپ کو اچھا نا لگتا ھو ۔ تو نہ لگیں سانوں کی۔
میں نے عشق کے لمبے لمبے چلے کاٹے کوئی انچاس سال کا کوئی تیس سال کا کوئی بیس سال کا کوئی پانچ سال کا کوئی تین سال کا سب ناکام ھی نکلے ۔ شاید میری قسمت تھی کوئی بھی لال نہ نکلا دعوی سب کا یہی تھا جیڑا کٹو اوھی لال۔ 
میں آھستہ آھستہ سب سے دور ھوتا جارھا ھوں پر کسی کو پتہ ھی نہیں چلا ۔ سب مصروف ھیں اور آج پھر بہت دنوں کے بعد سارا دن تصویروں اور کمپیوٹر کے ساتھ گزارا ساتھ چار فلمیں بھی دیکھیں قسم سے اور کسی کو نہیں دیکھا اور دن گزر گیا۔ مجھے ابھی بھی نہیں پتہ کمرے میں لیٹے ھونے کے باوجود کہاں ھوں۔ ساری زندگی کی فلم میرے سامنے چل رھی ھے اور اندازہ ھوا میں تو شروع سے ھی اکیلا رھتا تھا۔ معروف خان کا محبت بھرا فون آیا پیاجی فارث آیا ھوا ھے آجاو سب کھانے پر اکٹھے ھورھے ھیں آٹھ بجے تک لاھور پہنچ جاو۔ دل بہت کیا پر کیسے بتاتا اب میں کہیں نہیں جاتا بس دو کمرے ھیں ایک گھر کا اور ایک دفتر کا ان میں بند رھتا ھوں ۔ اور کبھی کبھی قبرستان جاتا ھوں۔ سب کو سلام کرتا ھوں دعا کرتا ھوں اور پھر واپس کمرے میں۔ 
بس یہی میری دنیا ھے یہی میں رھتا ھوں ۔ پتہ نہیں چلتا خوش ھوں یا ناخوش بس جاگتا سوتا رھتا ھوں۔

Prev آپ کی بات بلکل ٹھیک ھے میری بھی سن لیں
Next اللہ 

Comments are closed.