سال 2019

سال 2019
تحریر محمد اظہر حفیظ

کئی سال پہلے گزرے اسی طرح یہ سال بھی گزر گیا۔ کئی خوشیاں اور کئی غم دے گیا۔ بہت سے دوست ملے بہت سے بچھڑ گئے۔
نسٹ یونیورسٹی میں پڑھانے کا تجربہ بھی ھوا اور بحریہ یونیورسٹی میں پڑھانے کا بھی تجربہ کامیاب رھا۔ اسلامی یونیورسٹی میں پڑھانے کا تجربہ کافی غیر اسلامی رھا، زندگی کی سب سے بڑی نمائش پاکستان نیشنل آرٹ گیلری میں کی پھر دوسری بڑی نمائش نکتہ سٹوڈیوز میں کی ۔ کئی گیلری والوں کے لہجے، اور بہانے بھی سنے کئی نے تو مذاق بنا کر رکھ دیا۔ نائیکون کی سیاست کا بھی شکار ھوا کئی سال کی رفاقت ختم ھوگئی۔ پرانے کیمرے کی طرح اھمیت کم ھوگئی۔ فوٹوگرافرز کی سیاست اور چالاکیوں کو بھی دیکھا کئی دوست نما دشمنوں کی پہچان ھوئی۔ کچھ بہت بڑے دھچکے بھی لگے۔ کبھی عزت ملی کبھی گم ھوگئی، وقت گزرتا رھا اور گزر گیا، کئیوں نے ظلم سہے اور کئیوں نے ظلم کئے، فوٹوگرافی کرنے نہیں نکل سکا مزدوری تک محدود ھوگیا، یوٹیوب چینل بنایا کئی تجربے کئے، چھوٹے سے لیکر بڑے بڑے فریم بنائے چھوٹے سینکڑوں بک گئے بڑے محفوظ پڑے ھیں۔ کسی کو میرا تصویر بیچنے کا طریقہ سمجھ نہیں آیا ایک ھزار کی تصویر۔ اب سوچتا ھوں دس روپے کی تصویر کا کوئی سسٹم بناوں دس روپے کی تصویر اور ساتھ دس کا نوٹ بھی۔ میرا دل بھر گیا نمائشوں سے اب اور دل نہیں ھے کوئی لاھور سے چسکے لیتا ھے اور کوئی انگلینڈ سے اور مجھے بھی پرواہ نہیں۔ زندگی گزر رھی ھے ۔ ایک بہت ھی قریبی دوست ھیں کہنے لگے جو خرچہ ان تصاویر پر آیا ھے اس کے حساب سے سب تصویریں بیچ دو کہا کچھ نہیں پر سوچا ضرور۔ کوئی کیسے ادا کرے گا قیمت میرے تیس سالوں کی پھر چپ ھی رھا۔ کئی فوٹوگرافی کے پراجیکٹ کئے عزت بہت ملی پیسے کوئی نہیں۔ کئی دستاویزی فلمیں بنائیں اور بس۔ جب کام کرلو پھر لوگ مصروف بہت ھوجاتے ھیں۔ پیسے جو ادا کرنے ھوتے ھیں ۔ سر کو فون نہ کریں پلیز ھم سے رابطے میں رھیں۔ شکر ھے سارے پاکستان میں فوٹوگرافی پر پابندی ھے ورنہ اپنے آپ کو کیسے جواب دیتے۔ یاسر اقبال، محمد حیات، انکل امتیاز سب چھوڑ کر چلے گئے۔ رھنا کسی نے بھی نہیں ھے پر سال مختلف ھونگے ۔ ھر کوئی اپنے مطلب کے مطابق بات سمجھتا ھے اب سمجھانے کو بھی دل نہیں کرتا۔ جو سمجھتا ھے سمجھے۔ جب ایک سال ایسے گزر گیا باقی بھی گزر جائیں گے۔ میں شاید اب بہت سی گنتیوں میں نہیں ھوں آنا بھی نہیں چاھتا۔ بس کچھ سال اور گزارنے ھیں پتہ نہیں کتنے کیونکہ یہ کوئی بھی نہیں جانتا بس پلاننگ ھزار برس کی ھے۔ اگے پڑھنا شروع کردیا ھے کیونکہ لہجوں اور تاثرات کو پڑھنے کیلئے پہلی تعلیم کم تھی۔ بہت ھی محترم استاد ارشاد احمد کلیمی صاحب سے پڑھنے کاموقعہ ملا وہ ھمیں دیوار کے اس طرف پڑھنا دیکھنا سکھا رھے ھیں اگر میرے جیسا نالائق یہ فن سیکھ گیا تو شاید زندگی کسی کام آجائے، ان کو دیکھ دوبارہ جینا شروع کردیا ھے۔ قرآن و حدیث کی تعلیم پھر سے شروع کی ھے مجھے شدید افسوس ھے پانچ سال عربی زبان پڑھ کر میں نے بھلا دی۔ بہت ظلم کیا۔ سال2019 کا آخری دن ھے اور میں پچھلے انچاس سالوں کے حساب کتاب میں الجھ گیا۔ میں تو شاید اپنے رب کے دیئے ھوئے ایک لمحے کا حساب نہیں دے سکتا ۔ اتنے لمبے حساب کیسے دوں گا۔ رب سے اور سب سے ھر وقت معافی مانگتا رھتا ھوں رب شاید سن لے پر اے لوگ بڑے ظالم نے معاف نہیں کردے۔ سلامت رھیں خوش رھیں امین۔ مجھے اب کسی سے کوئی گلہ شکوہ نہیں۔ آپ کو ھے تو ھو۔

Prev پکا انا
Next آگ

Comments are closed.