اباجی

اباجی

تحریر محمد اظہر حفیظ

مجھے ابا بننے سے پہلے شاید اس رشتے کا اتنی گہرائی سے نہیں پتہ تھا بس اتنا پتہ تھا جب اباجی ساتھ ھوں تو سارا جہاں اپنا ھوتا ھے آپ سب لے سکتے ھو خرید سکتے ھو میرے ھیرو میرے اباجی ھی تھے ھیں اور رھیں گے میں نے کبھی ان کے منہ سے نہ کا لفظ نہیں سنا تھا صاحب کچھ لینا تے نہیں میرے پاس سب پہلے سے ھی تھا پھر بھی اکثر اباجی میرے سے پوچھتے رھتے تھے، میں اکثر رو دیتا ابا جی آپ ھیں تو سب کچھ ھے وہ انکھیں جھپک کر کہتے یار فیر وی باؤ کدی پیسے دی فکر نہ کریں تیرا باپ ھے یار ساڈے اباجی چھوٹے ھوندیاں دے فوت ھوگئے سن جو تنگیاں اسی دیکھیاں میں نہیں چاھندا تسی وی دیکھو کدی تنگ نہ ھونا، میرا پتر، جی ابا جی، اباجی کا ایک مخصوص سٹائل تھا، رونے، کا بس، آنکھیں جھپکنا شروع کردیتے تھے اور کچھ نہیں بس ایسے ھی زندگی گزار، دی انہوں نے آنکھیں جھپکتے جھپکتے،
ساری زندگی اباجی نے ٹیکہ نہیں لگوایا بہت ڈرتے تھے لیکن زندگی کے آخری دوسال ان کو وہ تمام ٹیکے لگ گئے جن سے وہ بچتے رھے، کینسر مرض ھی ایسا تھا امی جی کی زندگی میں ھم ابا جی سے بہت ڈرتے تھے جب سے امی جی کا انتقال ھوا تو ابا جی اب امی جی بھی ھوگئے تھے اتنے شفیق حلیم کہ یقین نہیں آتا تھا لیٹ گھر اتا تو، کہتے یار جلدی گھر ایا کر اننے پیسیاں دا کی کرنا اے اور میں نے جلدی آنا شروع کر دیا اب مجھے چار سال ھوگئے میں شام کو گھر آجاتا ھوں دوسال اباجی بیمار رھے اور دو ھی سال انکی وفات کو ھوگئے اسطرح چار سال سے میں نے اپنی ساری زندگی کی روٹین بدل دی ابا جی جاگتے رھتے تھے میرے انتظار، میں مجھے بہت، شرم آئی اور سارے سوشل نیٹ ورک چھوڑ، دیے جب ابا جی پاس بیٹھتا تو فون اپنے کمرے میں چھوڑ، جاتا تھا کیونکہ بار، بار، فون کے استعمال پر، پوچھتے تھے یار کی گواچ گیا جی ابا جی اوئے گواچا کی اے جیڑا اس وچوں لبھدا ایں بات مجھے سمجھ آگئی اور پھر انکی زندگی میں کبھی ان کے پاس موبائل لے کر نہیں گیا قبرستان بھی جاؤں تو اکثر، موبائل گاڑی میں چھوڑ جاتا ھوں کہ ناراض ھی نہ بو جائیں
ماں باپ کا دنیا سے جانے سے دنیا بھی چلی جاتی ھے،
نہ کھانے کا مزا، نہ جینے کا مزا نہ خوشی کا مزا دکھ سکھ کی بھی سمجھ نہیں بس زندگی گزر، رھی ھے دوستوں سے ملنا چھوڑ، دیا کہیں آنا جانا چھوڑ دیا میں اپنے ابا جی جیسا ابا جی بننا چاھتا ھوں جو اپنی اولاد کو بہن بھائیوں کو عزیز رشتے داروں کو کبھی نہ نہیں کرتے تھے اور معاف، کرنا جانتے تھے ایک دن میں نے کہا، ابا جی آپ سب کو فون کرتے ھیں آپ کو کوئی نہیں کرتا آپ بھی رھنے دیں کہنے لگے یار ھوسکتا ھے، وہ افورڈ نہ کرتے ھوں میں کرتا ھوں اس لیے کرتا ھوں جی اچھا ابا جی یار تیرے تایا جی بیمار نے انکو اسلام آباد لا کر چیک کرواتے ھیں جی ابا جی سب کا خیال رکھتے تھے اور فوت ھونے سے کچھ دن پہلے مجھے کہنے لگے یاراپنی بہن کا خیال رکھنا اس کے بچوں کے پڑھنے میں مددکرنا ساتھ ساتھ رھنا اپنے بھائی کو ساتھ رکھنا، تیری بیوی بہت اچھی ھے میرا ھمیشہ خیال اپنے باپ کی طرح رکھتی ھے مجھے بھی بیٹیوں کی طرح عزیز ھے کبھی کبھی سخت بول جاتاھوں پر ناراض نہیں ھوتی، اپنی پھوپھی کا خیال رکھنا دونوں چچا کا بھی خیال رکھنا جی ابا جی یار تو ھمیشہ جی جی کرتے رھتے ھو کوئی سدی طرح جواب بھی دیا کر جی ابا جی فر اوھی گل جی ابا جی پھر کیا کہوں، آپ کے سب حکم سر آنکھوں پر
میرا پتر فضول خرچی نہ کیا کر، تیرے کول دوکان نالوں زیادہ بیگ نے اننے کی کرنے نے بس، اباجی مختلف ضرورت، کے مختلف بیگ ھیں اور ساری زندگی جب بھی بیگ اتا وہ کراچی سے آئے یا، لاھور سے کورئیر سے اباجی ھی وصول کرتے اور ھنستے ھوئے کہتے یار، منع وی کیتا سی پر آج ایک ھور بیگ اگیا اے اننے کرنے کی نے دوکان کھول لے جی اچھا، جی اور ھنستے ھوئے کہتے یار پتہ نہیں تینوں میری گل کدوں سمجھ لگنی اے کچھ پیسے بچایا وی کر، جی ابا جی اور ابا جی مجھے سمجھاتے سمجھاتے اللہ پاس چلے گئے دس اکتوبر 2015ھم سی ایم ایچ آئی سی یو سے گھر آگئے کہنے لگے یار اپنی بہن کو بلاو جی ابا جی وہ آرھی ھے اچھا پتہ کرو کہاں پہنچی بار بار، گھڑی دیکھتے یار اسکو کہنا تھا ٹیکسی کروا لیتی فیصل آباد سے جلدی آجاتی جا جا کر لے آ ابا جی وہ خود آجائے گی یہ پہلی دفعہ تھی کہ ھم دونوں بھائی ابا جی پاس موجود رھے اور بہن کو، لینے نہیں گئے اور رات نو بجے کے قریب وہ آگئی اور ابا جی نے اس کو ملنے کے بعد گھڑی ھاتھ سے اتار، کر سائیڈ پر رکھ دی جیسے جس، کا انتظار، تھا وہ آگئی ھے باتیں کرتے کرتے سوگئے طارق بھائی ابا جی پاس تھے اور ھم اوپر جا کر سوگئے 11اکتوبر صبح ساڑھے چار، میری آنکھ کھلی تو بہن کو کہا یار ابا جی دا پتہ کرو شاید وہ چلے گئے ھیں بہن نیچے آنے لگی تو، میری بیوی بولی آپی آپ رکیں میں جاتی ھوں پھر اس کی آواز آئی آپ لوگ نیچے آجائیں ابا جی اللہ پاس چلے گئے ھیں میں نے پہلا فون چچا کو کیا جو اسلام آباد میں ھی تھے جی بیٹا چچا جی ابا جی اللہ پاس، چلے گئے اور چچا فورا آگئے اور میں نے بہت سی آنکھوں کو اشک بار دیکھا لیکن میں نہیں رویا کیونکہ جب 1992 میں جب ایک انجیکشن کے پرابلم کی وجہ سے انکی طبعیت بہت خراب ھوئی ڈاکٹر نے جواب دے دیا تھا کہ اپنے گھر اطلاع کر دیں میں نے اللہ سے دعا، کی یااللہ میرے ابا، جی کو زندگی دے، میں اپنی بہن کی رخصتی اکیلا نہیں کرسکتا میری ھمت نہیں ھے میرا تجھ سے وعدہ ھے اسکے بعد، جب بھی انکو، لیجائے گا، روؤں گا، نہیں اور اللہ نے انکو زندگی دی میں اس، کا شکر گزار ھوں اور23 سال بعد جب اس، نے ابا جی کو اپنے پاس بلایا تو مجھے کوئی شکوہ شکایت نہیں تھی بس اللہ کا شکر ادا کیا اس نے میری بات مانی بس، ایک دکھ تھا ایک ھی دن میں ھم یتیم اور، مسکین ھوگئے مجھے لگا، کہ شاید امی بھی آج فوت ھوگیئں اللہ میرے اور سب کے والدین جو انتقال فرماگئے ھیں بخشش کریں جنت الفردوس، میں جگہ عطا فرمائیں امین اور جن کے والدین حیات ھیں اللہ انکو صحت کے ساتھ ایمان والی زندگی عطا کریں امین

Prev فوٹوگرافروں کےچودہ نکات
Next ستمبر

Comments are closed.