موڈ ڈس آڈر

موڈ ڈس آڈر
تحریر محمد اظہر حفیظ

موڈ ڈس آڈر دراصل موڈ کے بدلنے کو کہتے ھیں جب کوئی ھنستے ھنستے غصے میں آجاتا ھے یا پھر غصے میں ھی ھنسنا شروع کردیتا ھے۔ تقریبا ھماری زیادہ تر قوم اس کا شکار ھے۔ جس کی وجہ سے خواب آور گولیوں کا استعمال بڑھتا جارہا ھے۔ اس بیماری میں مبتلا ھونے کیلئے کوئی عمر کی پابندی نہیں کوئی بھی کسی بھی عمر میں اس میں مبتلا ھوسکتا ھے۔ ایسا شخص اگر غصے میں ڈانٹ رھا ھو اور آپ آگے سے آنکھیں دکھائیں تو فورا خوشگوار موڈ میں تبدیل ھوجاتا ھے اس کی پہلی شخصیت ھمارے کالج کے پرنسپل پروفیسر محمد اکرم صاحب سے واسطہ پڑا پر اس وقت ھم اس بیماری کونہیں جانتے تھے پھر پتہ چلا کہ بھائی بھی اس ڈس آڈر کا شکار ھیں اور اب تو ماشااللہ ھماری اولادیں بھی اس بیماری کا کثرت سے شکار ھورھی ھیں۔ جس کی جتنی مرضی خدمت کرلو جب دل چاھا جس مرضی بات پرچاھا مزاج بدل لیا ھنستے ھنستے لڑنے لگ جاتے ھیں یا پھر رونا شروع کر دیتے ھیں ھمارے حلقہ احباب میں زیادہ تر لوگ اس بیماری کا شکار ھیں اور ھم انکے کسی بھی ایکشن پر ری ایکش شو نہیں کرتے تو پھر خود ھی ٹھیک ھوجاتے ھیں ۔ جب کوئی بغیر آنسوں کے روئے اور توجہ نہ ملے پھر وہ زمین پر لوٹ پوٹ ھونا شروع کردے تو میں آرام سے بیٹھا رھتا ھوں کہ یہ ڈرامہ کتنی دیر تک چلے گا پر باقی لوگ متوجہ ھوکر اس بچے کو مکمل مریض بنانے کی طرف چل پڑتے ھیں۔ 
سارے والدین کو چاھیئے کہ موڈ ڈس آڈر کو سٹڈی کریں یا پھر یوٹیوب پر ڈاکٹر صداقت صاحب کے بہت سے لیکچر موجود ھیں ان کو دیکھ لیں۔ انشاءاللہ بہتری ھوگی۔
موڈ ڈس آڈر کے مریضوں کے ساتھ رھنا اور دوستی رکھنا ایک صبر آزما کام ھے وہ آپ کی گفتگو میں سے غلطیاں پکڑنے کیلئے آپکو سنتے ھیں ۔ اگر آپ ایک ھفتے انکو سیر پر لے جائیں تو وہ ھر ھفتے تیار رھتے ھیں۔ اگر آپ ایک دن انکے ساتھ لڈو کھیل لیں وہ اسی وقت روز لڈو کھیلنے آجائیں گے ورنہ رونا دھونا شروع۔ سائیکالوجیکل مشقوں کے بعد مریض بہتر ھوجاتے ھیں پر انکو واپس پلٹنے میں کوئی وقت نہیں لگتا۔ بس بہتر حل خاموشی ھی ھے ۔ اگر آپ سوال جواب کریں گے تو معاملات بڑھتے ھی چلے جاتے ھیں۔ شاید ھر پڑھنے والے کو ایسے محسوس ھوگا کہ یہ اس کے بارے میں لکھا ھے ایسا ھرگز نہیں ھے یہ جو میں نے محسوس کیا اپنے اردگرد کے احباب کے بارے میں ھے۔ جب آپ کچھ دن بعد بھول جاتے ھیں کہ یہ سب ھوا تھا تو تب بھی وہ یاد رکھتے ھیں بجائے شرمندہ ھونے کے آپ پر چڑھائی کی کوشش کرتے ھیں شاید وہ جیت جائیں میں تو ثابت کر دیتا ھوں کہ اپ جیت گئے ھیں اور میں ھار گیا ھوں ۔ مزے کی بات ھے اپنوں سے ھارنے کا مزا جیت سے زیادہ ھے۔ آزما کر دیکھ لیجئے۔ 
ایسے لوگ آپ کو ھر بات سے بلاوجہ منع کر سکتے ھیں۔ میرے لئے دعا مت کیجئے گا۔میں نے باھر نہیں جانا۔ میں نے نئے کپڑے نہیں لینے میں نے کچھ نہیں کھانا۔ میں بات کرنا نہیں چاھتا، مجھے اکیلا چھوڑ دیں، یہاں سے چلے جائیں۔ انکو کبھی بھی یہ احساس نہیں ھوتا کہ انھوں نے غلط کیا ھے بس یہی سمجھتے ھیں سامنے والا غلط ھے۔ بہتر ھے آپ اپنی غلطی تسلیم کر لیجئے۔ اور معافی مانگ لیجئے اسی میں آپ کی اور کل کائنات کی بھلائی ھے۔ اب حالات نارمل ھیں مگر کسی بھی وقت انکو دوبارہ وھی بات یاد آجائے گی۔اور ناراضگی دوبارہ شروع۔ یہ سب لوگ دل کے بہت اچھے ھوتے ھیں بہت اچھے انسان ھوتے ھیں سب کی بھلائی چاھتے ھیں پر جب بھی بیماری ان پر غالب آتی ھے بلاوجہ روتے ھیں ناراض ھوتے ھیں چیختے ھیں گالیاں دیتے ھیں۔ اس حالت میں انکو صرف منفی باتیں یاد آتی ھیں مثبت بات انکو یاد نہیں آتی اسکا حل آگے سے خاموشی کے علاوہ کچھ نہیں ھے۔ جب بھی آپ یہ علامات اپنے کسی قریبی دوست یا عزیز میں دیکھیں تو فورا آچھے مستند سائیکالوجسٹ سے رجوع کریں اس کو اگنور مت کریں ۔ یہ ایک باقاعدہ بیماری ھے۔ اسکا بہت اچھا علاج ضروری ھے۔ سختی ھرگز بھی اس بیماری کا علاج نہیں ھے بس یہ سب توجہ چاھتے ھیں اور کچھ نہیں۔ اللہ تعالی سب کو صحت کاملہ عطا کریں امین۔ یہ بیماری بہت سے لوگوں پر اکثر حملہ آور ھوتی ھے اور ھم ان ساری کیفیات سے گزرتے ھیں ۔پر کچھ کر نہیں سکتے۔ بس دعا کر سکتے ھوں اللہ ھم سب پر اپنا کرم کریں امین

Prev صائمہ حسین
Next نفرت کے ایوارڈز

Comments are closed.